مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجهاد
جہاد کے فضائل و مسائل
کون سے نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ قبول نہیں
حدیث نمبر: 516
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلِ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يُوسُفَ، نا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ: تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ لَهُ: نَأْتِلٌ أَخُو أَهْلِ الشَّامِ: حَدِّثْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى فِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ، فَأَتَى اللَّهُ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، فَقَالَ لَهُ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنْ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ: هُوَ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، ثُمَّ أُمِرَ فَيُسْحَبُ عَلَى وَجْهِهِ إِلَى النَّارِ، وَأَتَى اللَّهُ بِرَجُلٍ قَدْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا فَقَالَ لَهُ: مَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ فَقَالَ: تَعَلَّمْتُ الْقُرْآنَ وَعَلَّمْتُهُ فِيكَ، وَقَرَأْتُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ؛ لِيُقَالَ: فُلَانٌ عَالِمٌ، وَفُلَانٌ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، ثُمَّ أُمِرَ فَيُسْحَبُ بِهِ عَلَى وَجْهِهِ إِلَى النَّارِ، وَأَتَى بِرَجُلٍ قَدْ أَعْطَاهُ اللَّهُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَالِ كُلِّهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فِيهَا فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ فَقَالَ: مَا تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيْهَا، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: هُوَ جَوَادٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَيُسْحَبُ بِهِ عَلَى وَجْهِهِ إِلَى النَّارِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا: ایک شہید، اسے اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا، وہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، وہ اسے فرمائے گا: تم نے ان کے بارے میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تمہاری راہ میں قتال کیا حتیٰ کہ میں شہید کر دیا گیا، وہ فرمائے گا: تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے تو اس لیے قتال کیا تھا کہ شہرت ہو، لوگ کہیں جری شخص ہے، پس وہ مشہوری ہو گئی، پھر اس کے متعلق حکم فرمائے گا، تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایک اور آدمی اللہ کے حضور لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا اور اس کی تعلیم دی، اس نے قرآن کی قرأت کی، پس وہ اپنی نعمتیں اسے یاد کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، وہ اسے کہے گا: تم نے ان کے بارے میں کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، تیری خاطر اس کی تعلیم دی اور قرآن کی قرأت کی، وہ فرمائے گا: تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے تو اس لیے تعلیم حاصل کی تھی کہ کہا جائے: فلاں عالم ہے، فلاں قاری ہے، پس یہ کہہ دیا گیا، پھر وہ حکم فرمائے گا، تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پھر ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ نے ہر قسم کا مال عطا کیا ہو گا، وہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا تو وہ انہیں پہچان لے گا، وہ فرمائے گا: تم نے ان کے بارے میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں نے ایسی کوئی جگہ اور راہ نہیں چھوڑی جہاں خرچ کرنا تجھے پسند ہو اور میں نے وہاں خرچ نہ کیا ہو، وہ فرمائے گا: تم جھوٹ کہتے ہو، تم نے ارادہ کیا تھا کہ کہا جائے: وہ سخی ہے، تو وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے متعلق حکم فرمائے گا، تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الامارة، باب من قاتل للرياء الخ، رقم: 1905. مسند احمد: 321/2. سنن نسائي، رقم: 3137.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 516 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 516
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا عمل کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، اگر اس عمل میں اخلاص نہیں تو وہ عمل اللہ ذوالجلال کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ وہ ثواب کی بجائے جہنم کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ شراکت اللہ ذوالجلال کو پسند نہیں ہے اور عبادت ہو تو ہر قسم کے شرک اور ریا سے پاک اور خالص اللہ کے لیے ہو، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ﴾ (البینة: 5).... ”اور وہ نہیں حکم دئیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں اللہ تعالیٰ کی اخلاص کے ساتھ۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں دوسرے شریکوں کے مقابلے میں شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو کوئی ایسا عمل کرے جس میں وہ میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو شریک کرے تو میں اس کو اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔ “ (مسلم، کتاب الزهد، رقم: 2985)
مذکورہ حدیث میں دکھلاوے کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ شرک اصغر ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارے بارے میں شرک اصغر کا بہت اندیشہ ہے؟“ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کیا ہے؟ فرمایا: ”عمل کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اگر ریا کاری ہے تو وہ برباد ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُهٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَکَهٗ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرة: 264)
”اے ایمان والو! اپنے صدقات اس شخص کی طرح احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع نہ کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خرچ کرتا ہے .... اور اللہ، یومِ آخرت پر ایمان نہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے پتھر کی چٹان پر مٹی ہو پھر زور کا مینہ پڑے اور اس کو صاف کر دے، ان لوگوں کو اپنی کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا .... الخ“
لیکن اگر کوئی عمل خلوص سے کیا جائے تو اللہ ذوالجلال اس کی جزا دیتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں (لقمہ) ڈالے۔“ (بخاري، رقم: 56)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 516