Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجهاد
جہاد کے فضائل و مسائل
قتال فی سبیل اللہ کا بیان
حدیث نمبر: 513
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں حتیٰ کہ وہ کہیں: اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔

تخریج الحدیث: «السابق.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 513 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 513  
فوائد:
مذکورہ حدیث میں کفار کے ساتھ جہاد و قتال کرنے اور کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ، سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ غیر مسلم ہیں جو صرف بتوں کی پوجا کرتے ہیں، نہ کہ اہل کتاب، کیونکہ وہ لا اله الا الله کا اقرار کرتے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تلوار اہل کتاب سے بھی دور نہ ہوگی، جب تک وہ نبوت کا اقرار نہ کر لیں گے۔ (شرح السنہ: 1؍ 66)
تاہم لا اله الا الله کے ساتھ رسالت کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْهَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ وَیُوْمِنُوْا بِیْ وَبِمَاجِئْتُ بِهٖ۔)) (مسلم، کتاب الایمان، رقم: 21)
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو غیر مسلم ٹیکس ادا کرتے ہیں تو ان سے قتال کیوں نہیں کیا جاتا ہے، جبکہ حدیث کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر اس آدمی سے قتال کرنا ہے جو توحید کا منکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں:
(1).... پہلا جواب یہ ہے کہ ٹیکس اور معاہدہ کرنے والے غیر مسلموں سے قتال کرنا منسوخ ہے، ٹیکس اور معاہدہ کرنے کی اجازت قتال والی احادیث کے بعد مل گئی ہو، اس کی دلیل یہ ہے کہ اجازت اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَاقْتُلُوْا الْمُشْرِکِیْنَ﴾ کے بعد ملی تھی۔
(2).... دوسرا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں کفار سے قتال کرنے کا حکم عام دیا گیا ہے، لیکن ممکن ہے وہ حکم عام بعض صورتوں کے لیے استثناء کا درجہ رکھتا ہو۔ (جیسا کہ اصول فقہ کا قاعدہ ہے عام خص منہ البعض) کیونکہ اس حدیث کا اصل مقصود یہ ہے کہ مطلوب کا حصول پورا پورا ہو، یعنی مطالبہ توحید اگر کسی دلیل کی وجہ سے بعض صورتیں رہ بھی جائیں تو اس حکم عام میں کسی قسم کا نقص وعیب پیدا نہیں ہوگا۔ (ان شاء اللہ)
(3).... تیسرا جواب یہ ہے کہ کفار کے متعلق قتال کا حکم تو عام ہے، لیکن ممکن ہے اس حکم سے اہل کتاب کے ماسوا خاص قسم کے مشرک کفار مراد لیے گئے ہوں۔
علاوہ ازیں اس بات کی تائید سنن نسائی کی ایک روایت بھی کرتی ہے جو ان الفاظ سے مروی ہے: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ الْمُشْرِکِیْنَ.... الخ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکین سے قتال کروں اگر کوئی (اس صورت پر) سوال اٹھائے کہ یہ بات اہل جزیہ پر تو صادق آتی ہے مگر جو کفار (کسی) معاہدہ کے تحت رہ رہے ہوں یا ٹیکس سے انکاری ہو کر اس ملک میں بس رہے ہوں ان پر صادق نہیں آتی۔
مزید لکھتے ہیں: ترک قتال سے قطعاً یہ مقصود نہیں ہے کہ ایسے کفار کے ساتھ ہمیشہ کے لیے قتال نہ کیا جائے، بلکہ اس سے یہ مقصود ہے کہ جب تک وہ ٹیکس ادا کرنے اور مسلمانوں سے طے شدہ معاہدے پر قائم ودائم رہیں تو انہیں معاف کیے رکھو، وگرنہ ان سے بھی قتال کیا جائے۔ تو سمجھ لیجئے کہ ایسے لوگوں سے عارضی طور پر قتال نہیں کیا جائے گا، جیسے صلح کرنے والوں کے ساتھ عارضی طور پر جنگ روک دی جاتی ہے۔ ہاں جو غیر مسلم پہلے ٹیکس ادا کرتے ہوں مگر بعد میں اس کی ادائیگی سے انکار کر دیں تو ان سے قتال کیا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے:
﴿حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ﴾ (التوبة: 29)
(4).... چوتھا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے مذکورہ حدیث میں شہادت سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو اور اس کے دشمن مغلوب ہوں (ظاہر ہے) اس کا حصول بعض کفار سے قتال کر کے بعض سے ٹیکس وصول کر کے اور بعض کفار سے عہد وپیمان کر کے حاصل ہوگا۔
(5).... پانچواں جواب یہ ہے کہ ممکن ہے قتال سے مراد وہی قتال ہو یا اس کے قائم مقام کوئی دوسری چیز مثلاً جزیہ وغیرہ، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں پر ٹیکس لگانے سے مقصود یہ ہے کہ وہ اسلام کے آگے سر جھکا دیں۔ (مجبور ہو جائیں) اور یہ سبب السبب۔ سبب کے حکم میں ہے، یعنی ان سے قتال اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں اور قتال کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مجبور ہو جائیں۔ اس سے ثابت ہوا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: غیر مسلموں سے قتال کرو، یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں یا وہ اس چیز کا التزام کریں جو انہیں اسلام کی طرف راغب کرے اور یہ سب سے عمدہ طریقہ ہے۔ (واللہ اعلم) (فتح الباري: 1؍77)
مذکورہ بالاحدیث میں ہے: ((اِلَّا بِحَقِّهَا)) مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام لانے کے بعد چوری کرتا ہے یا پاک دامن پر بدکاری کا الزام لگائے یا شراب پیئے یا کسی کو قتل کر دے تو اس کی سزا تو اس کو دی جائے گی۔
((وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللّٰهِ)) مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام کسی نے قبول کر لیا تو اس کے ظاہری معاملات پر ہم حکم لگائیں گے باقی اس کے باطنی امور اللہ کے ذمہ ہیں۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 513