مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الهبة و فضلها
ہبہ اور اس کی فضیلت کا بیان
ہدیہ و تحفہ دے کر واپس لینا جائز نہیں
حدیث نمبر: 496
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ، عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ، ثُمَّ يَعُودُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ يَأْكُلُ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ، ثُمَّ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ فَيَأْكُلُهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عطیہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کے مثل ہے جو کھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب وہ سیر ہو جاتا ہے، تو قے کر دیتا ہے اور پھر اس قے کو کھانے لگتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الهبة، باب لا يحل لاحدان يرجع فى هبته وصدقته، رقم: 2623. مسلم، كتاب الهبات، باب تحريم الرجوع فى الصدقة الهبة الخ، رقم: 1622. سنن ابوداود، رقم: 3539. سنن ابن ماجه، رقم: 2386. مسند احمد: 175/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 496 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 496
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کسی کو ہدیہ و تحفہ دے کر واپس لینا جائز نہیں ہے، یہ اس قدر قبیح اور رذیل عمل ہے کہ ایسے شخص کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اور جو چیز ہبہ کی گئی ہے اس کو قے سے تعبیر کیا ہے۔ جس سے انسان سخت کراہت محسوس کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: ((لَیْسَ لَنَا مَثَلَ السُّوْءِ)) (بخاري، کتاب الہبۃ، رقم: 2622).... ”ہم مسلمانوں کو بری مثال اختیار نہ کرنی چاہیے۔“ تحفہ دینے سے ایک دوسرے میں محبت پیدا ہوتی ہے، اسی لیے شریعت نے تحفہ دینے کی ترغیب دلائی ہے، لیکن اگر واپس لے لیا جائے تو اس سے نفرت پیدا ہوگی۔
نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی مسلمان آدمی کے لیے جائز نہیں کہ عطیہ دے کر اسے واپس لے مگر والد کے لیے، وہ عطیہ واپس لینا جائز ہے جو اس نے اپنی اولاد کو دیا ہو۔ “(سنن ابي داود، رقم: 3539۔ سنن ابن ماجة، رقم: 2377)
معلوم ہوا والد نے جو اپنی اولاد کو ہدیہ دیا ہے وہ واپس لے سکتا ہے۔ جمہور علماء بھی اسی کے قائل ہیں۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 496