مسند اسحاق بن راهويه
كتاب البيوع
خرید و فروخت کے احکام و مسائل
دودھ روکے ہوئے جانور کی خرید و فروخت کا بیان
حدیث نمبر: 435
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا عَوْفٌ، عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنِ اشْتَرَى لِقْحَةً مُصَرَّاةً أَوْ شَاةً مُصَرَّاةً فَحَلَبَهَا فَهُوَ بِأَحَدِ النَّظَرَيْنِ، إِنْ شَاءَ أَخَذَهَا وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَمَعَهَا إِنَاءٌ مِنْ طَعَامٍ))، قَالَ عَوْفٌ: وَذَلِكَ إِذَا نَقَصَ مِنْ لَبَنِهَا وَقَالَ الْحَسَنُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسی اونٹنی یا بکری خریدی جس کے تھنوں میں دودھ روک رکھا گیا تھا، پس اس نے اس کا دودھ دوہا تو اسے دونوں اختیارات میں سے ایک اختیار کا حق ہے، اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے واپس کر دے اور اس کے ساتھ غلے کا ایک برتن بھر کر دے۔“ عوف نے بیان کیا: یہ تب ہے جب اس کے دودھ میں کمی واقع ہو، حسن رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مثل فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تقدم تخريجه: 62. 161»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 435 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 435
فوائد:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ خریدار کو دھوکا دینے کے لیے اونٹنی، گائے، بھینس، بکری وغیرہ کا تھنوں میں دودھ روک لینا حرام ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو خریدار کو اختیار ہے کہ تین دنوں کے اندر اندر وہ جانور واپس کر دے۔ جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی ایسی بکری خرید لی جس کا دودھ روکا گیا تھا تو اسے تین دن تک اختیار ہے اگر وہ چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھانا بھی ساتھ لوٹائے۔ “ (مسلم، کتاب البیوع، رقم: 1524۔ سنن ابي داود، رقم: 344)
ایک صاع طعام ان کے درمیان جھگڑا ختم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ کیونکہ تھنوں میں خریدتے وقت کچھ دودھ رکا ہوا تھا اور کچھ خریدار کے پاس جا کر تیار ہوا، اب یہ تمیز مشکل ہے کہ کتنا دودھ جانور کے ساتھ خریدا ہے اور کتنا بعد میں تیار ہوا اور اس مشکل کو ایک صاع کھجور مقرر کر کے حل کر دیا گیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما جمہور علماء، صحابہ وتابعین کا موقف اسی حدیث کے مطابق ہے۔
لیکن احناف نے کہا ہے کہ اس عیب کی وجہ سے نہ تو بیع کو فسخ کرنے کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی کھجور کا ایک صاع لوٹانا واجب ہے۔ (بدایة المجتهد: 2؍ 144۔ المغنی: 6؍ 216۔ کتاب الام: 3؍ 82)
مذکورہ حدیث کو رد کرنے کے لیے احناف نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے۔ اس لیے ان کی وہ روایت جو قیاس جلی کے خلاف ہوگی قابل قبول نہیں ہوگی۔ حقیقتاً یہ روایت قیاس کے عین مطابق اور اس کے راوی ابوہریرہ فقیہ الائمہ کے لقب سے ملقب ہیں اور یہ حدیث مضطرب ہے نہ منسوخ۔ (اعلام الموقعین: 2؍220)
لیکن مذکورہ حدیث کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے اور اسی کے مطابق فتویٰ بھی دیا ہے جو احناف کے نزدیک فقہ اور اجتہاد میں امام تھے۔ (دیکھئے: فتح الباري: 5؍ 102، 106۔ نیل الاوطار: 3؍ 598)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 435