مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصوم
روزوں کے احکام و مسائل
رمضان میں دورانِ سفر روزہ رکھنے اور چھوڑنے کا بیان
حدیث نمبر: 426
اَخْبَرَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیْمِ الْجَزَرِیِّ، وَوَکِیْعٍ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنْ عَبْدِالْکَرِیْمِ الْجَزَریِّ عَنْ طَاؤُوْسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَا نَعِیْبُ عَلٰی مَنْ صَامَ فِی السَّفَرِ، وَلَا عَلٰی مَنْ اَفْطَرَ، زَادَ وَکِیْعٌ: قَدْ صَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی السَّفَرِ وَاَفْطَرَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: ہم سفر میں روزہ رکھنے والے اور روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ وکیع رحمہ اللہ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا اور روزہ نہیں بھی رکھا۔
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الصيام، باب جواز الصوم الفطر فى شهر رمضان للمسافر، انظر ما قبله»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 426 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 426
فوائد:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے دوران سفر روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں طرح جائز ہے، لیکن بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ۔)) (مسلم، کتاب الصیام، رقم: 1115) .... ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔“
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس پر روزہ رکھنا مشکل ہو یا جسے (سفر میں) روزہ نقصان دیتا ہو یا جو رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا جسے دوران سفر روزہ رکھنے سے فخر وریا کاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص پر روزہ چھوڑ دینا افضل ہے اور جو ان اشیاء سے مستغنی ہو، اس کے حق میں روزہ رکھنا افضل ہے۔ (نیل الاوطار: 3؍ 201)
امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: سفر میں مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے، اگر مشقت کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑنا افضل ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے والوں کے متعلق فرمایا: ((اُوْلٰئِكَ الْعُصَاةُ اُوْلٰئِكَ الْعُصَاةُ۔)) (مسلم، رقم: 114۔ سنن ترمذي، رقم: 710) .... ”یہ لوگ نافرمان ہیں، یہ لوگ نافرمان ہیں۔“ جمہور اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاص اس دن روزہ کھولنے کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے کہا تھا۔ (سبل السلام: 2؍ 886) کیونکہ لوگوں نے شکایت کی تھی کہ لوگوں کو روزے نے مشقت میں ڈال دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرلیا تاکہ میری طرف دیکھ کر باقی لوگ بھی افطار کرلیں تو کچھ لوگوں نے افطار نہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نافرمان کہا۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 426