Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصوم
روزوں کے احکام و مسائل
روزوں میں وصال کی ممانعت
حدیث نمبر: 405
أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ، إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ، إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ))، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: ((فَإِنَّكُمْ فِي ذَلِكُمْ لَسْتُمْ مِثْلِي إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، فَاكْلَفُوا مِنَ الْأعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصال سے بچو، وصال سے بچو، وصال سے بچو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تو وصال (افطار کیے بغیر مسلسل روزہ رکھا) کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بارے میں تم میرے مثل نہیں ہو، میں رات گزارتا ہوں جبکہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے، پس تم اتنے ہی اعمال بجا لاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الصوم، باب النهي عن اكثر الوصال، رقم: 1103.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 405 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 405  
فوائد:
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا وصال جائز نہیں ہے، وصال سے مراد یہ ہے کہ آدمی ارادی طور پر دو یا اس سے زیادہ دن تک روزہ افطار نہ کرے اور مسلسل روزہ رکھے، نہ رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کے وقت۔ (مزید دیکھئے: النهایة فی غریب الاحادیث والاثر)
جمہور اہل علم نے اسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت قرار دیا ہے۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام مالکs نے اسے مکروہ کہا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کو سحری تک کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے موقف کو سب سے زیادہ صحیح کہا ہے۔ (توضیح الاحکام: 3؍ 481)
اور امام احمد رحمہ اللہ اپنے موقف میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصال نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی وصال کرنا ہی چاہے تو سحری تک کرے۔ (بخاري، رقم: 1967)
مولانا داود راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: درحقیقت یہ طے کا روزہ نہیں کہ دن کی طرح ساری رات نہ کچھ کھائے نہ پیئے۔ (شرح بخاری: 3؍ 216 مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ)
مذکورہ بالا روایت میں ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ مذکورہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی توجیہات ہیں۔ ان میں سے زیادہ معروف اور اقرب الی السنۃ مندرجہ ذیل ہیں:
(1).... اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت وقوت کو ایسے رواں رکھتا جیسے کھانے، پینے کی حالت میں رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ مبارک بھی اس بات پر کھلی دلالت کر رہے ہیں کہ اس سے مقصود قوت اکل وشرب ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ (فتح الباري: 4؍ 207)
(2).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی عظمت فکر اور جملہ معارف میں اتنا مشغول و مصروف کر دیتا ہے کہ مجھے کوئی چیز کھانے پینے کا خیال و تصور تک نہیں رہتا، اس پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ایک ایسی خوراک ہے جو انسانی بدن کی جملہ خوراک سے انتہائی عمدہ اور بہتر ہے اور جس صاحب کو ادنیٰ درجہ ذوق اور تجربہ حاصل ہو تو وہ اس بات سے لا علم نہیں کہ دلی اور روحانی خوراک کی وجہ سے انسانی بدن کو جسمانی خوراک کی ضرورت نہیں رہتی۔ (دیکھئے عمدة القاری: 4؍ 207)
تم میری مثل نہیں ہو، مطلب یہ ہے کہ میرا اللہ ذوالجلال کے ساتھ جو تعلق ہے اس طرح کا تعلق تمہارا نہیں ہے اس تعلق کی وجہ سے اللہ ذوالجلال میرے اندر کھانے پینے کے بغیر ہی قوت پیدا کر دیتا ہے جو تمہیں کھانے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 405