صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
45. بَابُ غَزْوَةُ مُوتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ:
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
حدیث نمبر: 4268
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ بِهَذَا، فَلَمَّا مَاتَ لَمْ تَبْكِ عَلَيْهِ.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبثر بن قاسم نے بیان کیا ‘ ان سے حصین نے ‘ ان سے شعبی نے اور ان سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو بے ہوشی ہو گئی تھی ‘ پھر اوپر کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ چنانچہ جب (غزوہ موتہ) میں وہ شہید ہوئے تو ان کی بہن ان پر نہیں روئیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4268 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4268
حدیث حاشیہ:
ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ میت پر نوحہ کرنا خود میت کے لیے باعث عذاب ہے۔
اس لیے انہوں نے اس حرکت سے پرہیز اختیار کیا خالی آنسو اگر جاری ہوں تو یہ منع نہیں ہے چلا کر رونا اور میت کے اوصاف بیان کرنا منع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4268
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4268
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے مدح خواں تھے۔
جب وہ بیمار ہوئے تو ان پر بے ہوشی کادورہ پڑا۔
ان کی اس حالت کو دیکھ کر ان کی ہمشیر نے ان پر نوحہ کیا جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو اسی وقت افاقہ محسوس ہوا اور کہا کہ ایک فرشتے نے میرے سرپر لوہے کاہتھوڑا اٹھایا اور کہا:
کیا تو واقعی ایسا ہے جیسا کہ تیری بہن کہہ رہی ہے؟ اگر میں ہاں کہہ دیتاتو وہ میرا سرہتھوڑے سے کچل دیتا۔
ایک روایت میں ہے کہ اس واقعے کے بعد انھوں نے اپنی کو رونے سے منع کردیا، چنانچہ جب اسے جنگ موتہ میں ان کی شہادت کی خبر ملی تو ان کی ہمشیر نے صبر کیا اور ہرگز نہ روئی۔
2۔
امام بخاری ؒ نے اسی لیے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے کہ جس مرض میں وہ بے ہوش ہوئے تھے اس میں ان کی وفات نہیں ہوئی تھی۔
ان کی وفات اس واقعے کے بعد جنگ موتہ میں ہوئی۔
(فتح الباري: 647/7۔
)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4268