تشریح: «بوادر»،
«بادرة» کی جمع ہے۔ جو گردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسا اوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔
ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ
(سچے خوابوں) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غار حرا میں خلوت اختیار کی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں
«تحنث» اختیار فرمایا۔ لفظ
«تحنث» زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیا و مافیہا سے الگ ہو کر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسر کرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِ الٰہی، ذکر و فکر و مراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گزارا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملا کر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی و مادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہو جائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی
«اقرا باسم ربك» کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق و خلقت انسانی و اہمیت قلم و آداب تعلیم اور علم و جہل کے فرق پر جو جو لطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہد جاہلیت میں بت پرستی سے متنفر ہو کر نصرانی ہو گئے تھے اور ان کو سریانی و عبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لا چکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایا وہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل و خوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بےحد شاندار ہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لفظ
”ناموس اکبر
“ سے یاد فرمایا۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں:
«هو صاحب سرالوحي والمراد به جبرئيل عليه الصلوة والسلام واهل الكتاب يسمونه الناموس الاكبر» یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو اہل کتاب
”ناموس اکبر
“ کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔
حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگر یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یا اڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے در پے وحی آنے لگی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دبایا۔
اس کے متعلق علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
«وهذا الغط ليفرغه من النظر الي امور الدنيا ويقبل بكلية الي مايلقي اليه وكرره للمبالغة واستدل به على ان المودب لايضرب صبيا اكثر من ثلاث ضربات وقيل الغطة الاوليٰ ليتخليٰ عن الدنيا والثانية ليتفرغ لما يوحي اليه والثالثة للموانسة» [ارشاد الساری 63/1] یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کر کے جو وحی و بار رسالت آپ پر ڈالا جا رہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کر دیا جائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو تو تین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوں نے اس واقعہ
”غطہ
“ کو آنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاء کی ابتداء وحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں:
«فقال له ورقة ابشرثم ابشر فانااشهدانك الدي بشربه ابن مريم وانك على مثل ناموس موسيٰ وانك نبي مرسل» یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہو جائیے، خوش ہو جائیے، میں یقیناً گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی و رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کر جائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ: بذیل تفسیر سورۃ مدثر
«وثيابك فطهر» فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراء
«ثياب» سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔
امرالقیس کہتا ہے:
«وان كنت قد ساتك مني خليقة فسلي ثيابي من ثيابك تنسلي» اس شعر میں
«ثياب» سے مراد دل ہے۔ یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگر دل کا پاک صاف رکھنا ہر حال میں لازمی ہے۔
حدیث شریف میں وارد ہے
«ان فى الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد كله واذا فسدت فسدالجسد كله الا وهى القلب» یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، سو وہ دل ہے۔
«اللهم اصلح قلبي وقلب كل ناظر»)
[تفسير ثنائي] عجیب لطیفہ: قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ
«اقراءباسم ربك الذي» پر تقریباً اکثر کا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ
«ياايها المدثر» نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہو کہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا ترجمہ باشرح شائع فرما رہے ہیں۔ اس سے سورۃ فاتحہ کی نماز میں عدم رکنیت پر دلیل پکڑی ہے۔
چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
”سب سے پہلے سورۃ إقرأ نازل ہوئی اور سورۃ فاتحہ کا نزول بعد کو ہوا ہے تو جب تک اس کا نزول نہیں ہوا تھا، اس زمانے کی نمازیں کس طرح درست ہوئیں؟ جب کہ فاتحہ رکن نماز ہے کہ بغیر اس کے نماز درست نہیں ہو سکتی قائلین رکنیت فاتحہ جواب دیں۔ “ [انوارالباري: جلد اول، ص40]
نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا صحت نماز کے لیے ضروری ہے، اس پر یہاں تفصیل سے لکھنے کا موقع نہیں نہ اس بحث کا یہ محل ہے ہاں حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے لفظوں میں اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ
«فإن قراءتها فريضة و هي ركن تبطل الصلوة بتركها.» [غنية الطالبين: ص 53] یعنی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا بطور رکن نماز فرض ہے جس کے ترک کرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، موصوف کے جواب میں ہم سردست اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتے ہیں کہ جب کہ ابھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہی نہیں ہوا تھا جیسا کہ موصوف نے بھی لکھا ہے تو اس موقع پر اس کی رکنیت یا فرضیت کا سوال ہی کیا ہے؟ ابتدائے رسالت میں بہت سے اسلامی احکام وجود میں نہیں آئے تھے جو بعد میں بتلائے گئے۔ پھر اگر کوئی کہنے لگے کہ یہ احکام شروع زمانہ رسالت میں نہ تھے تو ان کا ماننا ضروری کیوں؟ غالباً کوئی ذی عقل انسان اس بات کو صحیح نہیں سمجھے گا۔ پہلے صرف دو نمازیں تھیں بعد میں نماز پنج وقتہ کا طریقہ جاری ہوا، پہلے اذان بھی نہ تھی بعد میں اذان کا سلسلہ جاری ہوا۔ مکی زندگی میں رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، مدنی زندگی میں یہ فرض عائد کیاگیا۔ پھر کیا موصوف کی اس نازک دلیل کی بنا پر ان جملہ امور کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ ایک ادنیٰ تامل سے یہ حقیقت واضح ہو سکتی تھی، مگر جہاں قدم قدم پر مسلکی و فقہی جمود کام کر رہا ہو وہاں وسعت نظری کی تلاش عبث ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بھی سورۃ فاتحہ کا نزول ہوا اور نماز فرض باجماعت کا طریقہ اسلام میں رائج ہوا، اس سورۃ شریفہ کو رکن نماز قرار دیا گیا۔ نزول سورہ و فرض نماز جماعت سے قبل ان چیزوں کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ باقی مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔
«ان شاءالله تعاليٰ.»