Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
45. بَابُ غَزْوَةُ مُوتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ:
باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
حدیث نمبر: 4264
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ:" كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَيَّا ابْنَ جَعْفَرٍ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ ذِي الْجَنَاحَيْنِ".
مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے عامر شعبی نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے لیے سلام بھیجتے تو السلام علیک یا ابن ذی الجناحین کہتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4264 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4264  
حدیث حاشیہ:
اے دو پروں والے کے بےٹے! تجھ پر سلام ہو حضرت جعفر ؓ کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فالمراد بالجناحین صفة ملکیة وقوة روحانیة أعطیھا جعفر یعنی سہیلی نے کہا کہ جناحین سے مراد وہ صفات ملکی وقوت روحانی ہے جو حضرت جعفر ؓ کو دی گئی۔
مگر وإذا لم یثبت خبر في بیان کیفیتھا فنؤمن بھا من غیر بحث عن حقیقتھا (فتح الباری)
یعنی جب ان پروں کی کیفیت کے بارے میں کوئی خبر ثابت نہیں تو ہم ان کی حقیقت کی بحث میں نہیں پڑتے بلکہ جیسا حدیث میں وارد ہوا اس پر ایمان لاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4264   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4264  
حدیث حاشیہ:

جنگ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کی شہادت کے بعد حضرت جعفر ؓ نے لپک کر جھنڈا اٹھایا اور دشمنوں سے جنگ شروع کردی۔
جب جنگ شدت اختیار کر گئی تو وہ اپنے گھوڑے سے کود پڑے، لڑتے لڑتے دشمن کی ضرب سے ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا۔
اس کے بعد انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا اور اسے مسلسل بند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا حتی کہ آپ شہید ہوگئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے انھیں دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں ایسے دوبازو عطا فرمائے جن کے ذریعے سے وہ جہاں چاہتے ہیں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔
"(سلسلة الأحادیث الصحیة: 226/3 رقم الحدیث 1226۔
)

اس لیے ان کا لقب جعفر طیار اور جعفر ذوالجناحین پڑگیا۔

ان دونوں پروں کی کیفیت کا بیان کسی حدیث میں نہیں ہے، اس لیے ہم اسے حقیقت پر محمول کرتے ہوئے ان پر ایمان لاتے ہیں، اور ان کی کیفیت اللہ کے سپردکرتے ہیں اور نہ اس کی کوئی تاویل ہی کرتے ہیں۔
بعض لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مرادصفت ملکیہ اور قوت روحانیہ ہے جو حضرت جعفر ؓ کو عطا کی گئیں لیکن ہمیں اس تاویل سے ہرگز اتفاق نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4264