Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
میدانِ عرفات کا بیان
حدیث نمبر: 355
اَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرِ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ عُرَنَةَ، وَالْمُزْدَلِفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ وَارْفَعُوا عَنْ مُحَسِّرٍ، وَفِجَاجُ مَکَّةَ کُلُّهَا مَنْحَرٌ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میدان عرفات سارے کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے اور عرنہ (عرفات کے قریب جگہ) میں قیام نہ کرو، مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے، لیکن محسر (منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک جگہ) میں وقوف نہ کرو، اور مکہ کے سارے راستے قربان گاہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب المناسك، باب الذبح، رقم: 3048. قال الشيخ الالباني: صحيح»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 355 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 355  
فوائد:
(1) میدان عرفات میں 9 ذوالحجہ کو جانا واجب ہے، اگر کوئی نہ جائے گا تو اس کا حج باطل ہے۔
سیدنا عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، کچھ لوگ آئے اور حج کے بارے میں پوچھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے، جو شخص مزدلفہ کی رات (یعنی 9 اور 10 ذی الحجہ کی درمیانی رات) طلوع فجر سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے، اس کا حج ادا ہوگیا۔ (سنن نسائي، کتاب الحج، باب فرض الوقوف بعرفة)
معلوم ہوا اگر کوئی آدمی دس ذی الحجہ کی طلوع فجر سے پہلے پہلے گھڑی بھر کے لیے بھی میدان عرفات میں پہنچ جائے تو اس کا حج ہو جائے گا نہ پہنچا تو حج نہیں ہوگا۔ وادی عرفات اور وادی نمرہ دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ مسجد نمرہ کا ایک حصہ وادی عرفات میں ہے اور دوسرا وادی نمرہ میں، مسجد کے اندر بورڈ لگا کر اس کی نشاندہی کی گئی ہے لہٰذا مسجد میں قیام سے قبل حدود عرفات کی تحقیق کر لینی چاہیے تاکہ حج باطل نہ ہو۔
(2).... 9 اور 10 ذی الحجہ کی درمیانی رات مزدلفہ میں بسر کرنا واجب ہے، کیونکہ مزدلفہ میں ٹھہرنا حج کا رکن ہے۔ وادی محسر یہ وہ جگہ ہے جہاں ابرہہ کا لشکر تباہ ہوا تھا، یہ منیٰ اور منزدلفہ کے درمیان ہے۔ اور مزدلفہ کے ساتھ یہ جگہ متصل ہے۔ لہٰذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مزدلفہ کی بجائے وادی محسر میں ٹھہر جائے۔
(3).... فجاج کھلے راستے کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ مکہ کے ہر راستے سے داخل ہوا جا سکتا ہے، لیکن اگر کداء والی جانب سے داخل ہوا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے، اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارا عرفات موقف ہے سارا منیٰ قربان گاہ ہے، سارا مزدلفہ موقف ہے، مکہ کی ساری گلیاں، راستہ قربان گاہ ہیں۔ (سنن ابي داود، رقم: 1936۔ اسناده صحیح)
بہتر یہ ہے کہ قربانی منیٰ میں کی جائے اگر وہاں ممکن نہ ہو تو پھر مکہ میں کسی جگہ بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ لیکن مکہ مکرمہ کے باہر جائز نہیں ہے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 355