مسند اسحاق بن راهويه
كتاب المناسك
اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا
حدیث نمبر: 346
اَخْبَرَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ، نَا وُهَیْبَ بِهَذَا الْاِسْنَادِ مِثْلَهٗ۔ وَقَالَ یَحْیَی: لِاَنَّهُمْ کَانُوْا لَا یَعْرِفُوْنَ اِلَّا العمرة، اِلَّا تَرٰی اَنَّهٗ یَقُوْلَ: قَدِمْنَا لَا نَرٰی اِلَّا الْحَجَّ.
وہب نے اس اسناد سے اسی مثل روایت کیا ہے، یحیٰی رحمہ اللہ نے بیان کیا، اس لیے کہ وہ صرف عمرہ ہی سے واقف تھے، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ کہتے تھے: ہم صرف حج ہی سمجھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 346 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 346
فوائد:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔ علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کے ذیل میں ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے۔ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جب کہا: ((یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَیُّ الْحِلَّ قَالَ اَلْحِلُّ کُلُّهٗ۔)) یعنی یا رسول اللہ عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔“ انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں۔ لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔
دوسری روایت میں ہے بعض صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔ لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے، انہوں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ حکم دیں، وہی اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے، آپ جو بھی حکم فرمائیں، اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے، گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔ ہم کو مرتے دم تک اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا ہے اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیر ومرشد، درویش، قطب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت کافی ہے، سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنی کفش بردار ہیں۔ کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو۔
”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اَصْحَابِهٖ وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَاحْشُرْنَا فِیْ زُمْرَةِ اتْبَاعِهٖ وَثَبِّتْنَا عَلٰی مُتَابِعَتِهٖ وَالْعَمَلِ بِسُنَّتِهٖ، آمین۔“
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 346