Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجنائز
جنازے کے احکام و مسائل
مرنے والے کی نیکیوں کا ذکر کرنا
حدیث نمبر: 254
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، نا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ فَأُثْنِيَ عَلَيْهِ خَيْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَجَبَتْ))، ثُمَّ تُوُفِّيَ آخَرُ فَأُثْنِيَ عَلَيْهِ شَرًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَجَبَتْ))، فَعَجِبَ بَعْضُ الْقَوْمِ مِنْهُ وَقَالَ: مَا وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَنْتُمْ شُهَدَاءُ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس کی اچھائیاں بیان کی گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر ایک دوسرا شخص فوت ہوا تو اس کی برائیاں بیان کی گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی، بعض لوگوں کو اس سے تعجب ہوا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا واجب ہو گئی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک دوسرے پر گواہ ہو۔

تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الجنائز، باب ثناء الناس على الميت، رقم: 1367. مسلم، كتاب الجنائز، باب فيمن يثني عليه خيرا الخ، رقم: 949. سنن ابوداود، رقم: 3233. سنن ترمذي، رقم: 1058.»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 254 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 254  
فوائد:
مذکورہ حدیث سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ یہ جن کو اچھا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو اچھا سمجھتا ہے اور جن کو یہ برا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی ان کو برا سمجھتا ہے اور معلوم ہوا مرنے والوں کی نیکیوں کا ذکر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے اپنی زندگی میں اچھے اخلاق اختیار کرے اور لوگوں کے کام آنے کی کوشش کرتا رہے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اچھے الفاظ سے یاد کریں۔
سیدنا یزید بن شجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے ساتھ نکلے، لوگوں نے اس میت کے بارے میں اچھے کلمات کہے اور اس کی تعریف کی، اتنے میں جبرائیل امین علیہ السلام آئے اور کہا: یہ آدمی اس طرح تھا تو نہیں جیسے لوگ کہہ رہے ہیں۔ بہرحال تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو، اس لیے اس نے (تمہاری گواہی کو دیکھ کر) اس کے وہ گناہ بھی معاف کر دئیے جو یہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ (سلسلة الصحیحة، رقم: 1312)
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 254