مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الجنائز
جنازے کے احکام و مسائل
نمازِ جنازہ کا طریقہ اور دعائیں
حدیث نمبر: 252
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، نا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي الْجُلَاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ شَمَّاسٍ، رَجُلًا مِنْ قَوْمِهِ قَالَ: أَرْسَلَنِي سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَكُنْتُ مَعَ مَرْوَانَ، فَمَرَّ أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: بَعْضَ حَدِيثِكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ثُمَّ سَأَلَهُ كَيْفَ رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ؟ فَيَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْجِنَازَةِ فَيَقُولُ: ((اللَّهُمَّ أَنْتَ خَلَقْتَهَا، وَأَنْتَ هَدَيْتَهَا لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهَا تَعْلَمُ سِرَّهَا وَعَلَانِيَتَهَا جِئْنَاكَ شُفَعَاءَ فَاغْفِرْ لَهُ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھتے تو آپ یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! تو نے اسے پیدا فرمایا، تو نے اس کی اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی، تو نے اس کی روح قبض فرمائی، تو ہی اس کے مخفی و علانیہ حالات سے واقف ہے، ہم سفارشی بن کر تیری خدمت میں حاضر ہوئے ہیں پس تو اسے بخش دے۔“
تخریج الحدیث: «السابق»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 252 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 252
فوائد:
نماز جنازہ کا مختصر طریقہ: چار تکبیریں (بخاري: 1334، 1333۔ مسلم: 952)
پہلی تکبیر کے بعد: اعوذ باللہ پڑھ کر سورۂ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھے، دوسری تکبیر کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (نماز والا) درود شریف پڑھے: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ .... حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ تک۔
تیسری تکبیر کے بعد: میت اور مسلمانوں کے لیے دعائیں پڑھے: ((أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا۔ أَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَهٗ مِنَّا فَأَحْیِیْہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَهٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ۔ أَللّٰهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ)) (سنن ابي داود، رقم: 3201۔ سنن ترمذي، رقم:1024) مذکورہ دعا زندہ اور مردوں دونوں کے لیے ہے۔
دوسری دعا میت کے لیے ہے: ((أَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَهٗ وَارْحَمْهُ وَعَافِهٖ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَکْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهٖ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَیْرًا مِّنْ دَارِهٖ وَأَهْلًا خَیْرًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَزَوْجًا خَیْرًا مِّنْ زَوْجِهٖ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ)) (مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 963۔ سنن ابن ماجة، رقم: 1500)
اور مذکورہ بالا روایت میں موجود دعا بھی پڑھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی دعائیں ثابت ہیں، جو بھی پڑھی جائے جائز ہے، اگر ساری بھی پڑھ لیں تو درست ہیں۔
چوتھی تکبیر کے بعد: سلام پھیرنا ہے اور ہر تکبیر میں رفع الیدین کرنا چاہیے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز جنازہ ادا فرماتے ((رَفَعَ یَدَیْهٖ فِیْ کُلِّ تَکْبِیْرَةٍ وَاِذَا انْصَرَفَ سَلَّمَ)) تو ہر تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے اور سلام پھیر کر نماز جنازہ ختم کرتے تھے۔ (کتاب العلل للدارقطنی: 13؍ 22، رقم: 2908۔ اسناده صحیح)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 252