مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصلوٰة
نماز کے احکام و مسائل
مؤذنوں کی فضیلت
حدیث نمبر: 140
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الْمُؤَذِّنُونَ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان دینے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ دراز گردن والے ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل الاذان وهرب الشيطان، الخ: رقم: 387. صحيح ابن حبان: رقم، 1669. طبراني اوسط، رقم: 2851»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 140 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 140
فوائد:
مذکورہ حدیث سے موذنوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، میدان محشر میں یہ دوسرے لوگوں سے دراز ہوں گے یعنی ان کی گردنیں لمبی ہوں گی لیکن وہ عجیب سی نہیں لگیں گی، بلکہ خوبصورت لگیں گی جس طرح اونٹ کی گردن لمبی ہوتی ہے اور اونٹ خوبصورت جانور ہے۔ بعض نے لمبی گردن سے مراد ان کی عظمت اور مقام کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق محدثین کے آٹھ اقوال نقل فرمائے ہیں۔
(1).... روز قیامت لوگ پیاسے ہوں گے اور اس وجہ سے ان کی گردنیں مڑ جائیں گی۔ اذان دینے والے اس دن پیاسے نہ ہوں گے اور ان کی گردنیں باقی لوگوں کے مقابلے میں اونچی ہوں گی۔
(2).... اپنے ثواب کے شوق میں ان کی گردنیں بلند ہوں گی۔
(3).... جس طرح وہ بلند آواز سے اذان دینے کی خاطر دنیا میں اپنی گردنوں کو اونچا کرتے رہے ہیں، اسی طرح روز قیامت ان کی گردنیں بلند ہو جائیں گی اور وہ دیگر لوگوں سے نمایاں ہوں گے۔
(4).... جب لوگوں کو پسینے کی لگامیں پہنائی جائیں گی تو وہ ان سے محفوظ رہیں گے۔
(5).... اعناق، لفظ عنق کی جمع ہے اور اس کا معنی پیروکار اور ساتھی ہے اور حدیث شریف کا معنی یہ ہے کہ ان کے پیروکار (عام) لوگوں سے زیادہ ہوں گے، کیونکہ ان کی اذان کو سن کر آنے والے سب لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔
(6).... عنق کا معنی عمل ہے اور حدیث شریف کا معنی یہ ہوگا کہ ان کے اعمال (عام) لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔
(7).... روز قیامت وہ لوگوں کے سردار ہوں گے، کیونکہ طویل العنق (لمبی گردن والے) سے مراد سردار ہوتا ہے۔
(8).... بعض حضرات نے اعناق کو اعناق پڑھا ہے، اور اس ہی سے عنق ہے اور یہ تیز چلنے کی ایک صورت کا نام ہے اور حدیث شریف کا معنی یہ ہے کہ وہ (عام) لوگوں سے زیادہ رفتار کے ساتھ جنت کی طرف جائیں گے۔ (نتائج الافکار: 1؍ 227)
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 140