مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الصلوٰة
نماز کے احکام و مسائل
سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی
حدیث نمبر: 139
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اخْرُجْ فَنَادِ فِي النَّاسِ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَمَا زَادَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر جا کر اعلان کرو کہ سورہ الفاتحہ اور اس سے زائد قرأت کے بغیر کوئی نماز نہیں (ہوتی)۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابودواد، كتاب الصلاة، باب من ترك القراء فى صلاة بفاتحة الكتاب، رقم: 820. فيه جعفر بن ميمون وهو ضعيف ضعضه احمد، و ابن معين والبخاري والجمهور»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 139 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 139
فوائد:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس میں موجود باتیں دوسری صحیح روایت سے ثابت ہیں کہ منفرد کے لیے سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانی ضروری ہے اور سورۃ فاتحہ امام و مقتدی ہر ایک کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَاْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ)) (بخاري، رقم: 756).... ”جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔ـ“
ایک دوسری روایت میں ہے: ((لَا تُقْبَلُ صَلٰوۃٌ لَا یُقْرَأُ فِیْهَا بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ)) (فتح الباری شرح حدیث: 756).... ”جس نماز میں ام القرآن نہ پڑھی جائے وہ قبول نہیں ہوتی۔“
ایک اور روایت میں ہے: ((مَنْ صَلّٰی صَلَاةً لَمْ یَقْرَأ فِیْهَا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَهِیَ خِدَاجٌ یَقُوْلُهَا ثَلَاثًا۔)) (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، رقم: 395۔ سنن ابي داود، رقم: 821).... ”جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ونامکمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی۔“
معلوم ہوا ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے خواہ کوئی مقتدی ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ اس کی نماز ناقص ہے جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا، اس روایت کے راوی ابو سائب رحمہ اللہ نے کہا: اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! ((اَحْیَانًا اَکُوْنُ وَرَآءَ الْاِمَامِ۔)) ”میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں“ تو انہوں نے میری کلائی دبائی اور کہا: اِقْرَأْ بِھَا یَا فَارْسِیُّ فِیْ نَفْسِكَ، (مسلم، رقم: 395۔ سنن ابي داود، رقم: 821) ”اے فارسی! اسے اپنے نفس میں (آہستہ) پڑھا کرو۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ خَلْفَ الْاِمَامِ)) (بیہقی فی کتاب القراء ۃ: 56) ”اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی۔“ مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث دارلعلوم دیوبند نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فص الختام: 147)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہر رکعت میں امام مقتدی اور منفرد سب کے لیے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے، خواہ سری نماز ہو یا جہری ہو فرض ہو یا نفل ہو۔
امام مالک اور امام احمد; فرماتے ہیں: جہری نمازوں میں نہیں، بلکہ سرّی نمازوں میں سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی جبکہ احناف کا موقف ہے کہ مقتدی فاتحہ کی قراء ت نہیں کرے گا، خواہ سرّی نماز ہو یا جہری ہو۔ (المغنی: 1؍ 376۔ کتاب الام: 1؍ 210۔ الهدایہ: 1؍ 048۔ بدایۃ المجتهد: 1؍ 119)
امام احمد رحمہ اللہ کی دلیل: .... سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جہری نماز سے فراغت کے بعد پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قراء ت کی ہے؟
ایک آدمی نے اعتراف کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں قرآن کے ساتھ جھگڑ رہا ہوں۔“ راوی کہتا ہے: اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہری نمازوں میں قراء ت سے باز آگئے۔ (صحیح ابوداؤد، رقم: 736۔ سنن ابن ماجة، رقم: 848)
مذکورہ حدیث کی وضاحت راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود فرما دی ہے کہ جب کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو انہوں نے جواب میں کہا: اے فارسی! اسے اپنے نفس میں پڑھ لیا کرو۔“ (ابوداود: 821)
معلوم ہوا امام کے پیچھے جہری نمازوں میں صحابہ آواز نکال کر پڑھنے سے باز آگئے تھے، جبکہ ہلکی آواز سے فاتحہ پڑھتے تھے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 139