Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الطهارة
طہارت اور پاکیزگی کے احکام و مسائل
شریعت محمدی کے انکار کی چند وجوہات
حدیث نمبر: 99
أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، نا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنِي حَكِيمٌ الْأَثْرَمُ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أَتَى كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ أَوْ أَتَى حَائِضًا أَوْ أَتَى امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کرے، یا حائضہ سے جماع کرے، یا عورت سے اس کی پشت میں جماع کرے تو ایسا شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہونے والی شریعت سے لاتعلق ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الطب، باب فى الكهان، رقم: 3904. قال الالباني: صحيح، سنن ترمذي، ابواب الطهارة، باب ماجا فى كراهية اتيان الحائض، رقم: 1350. سنن ابن ماجه، رقم: 639. سنن دارمي، رقم: 1136. مسند احمد: 408/2»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 99 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 99  
فوائد:
(1) کاہن کی تعریف: کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو کائنات کے بارے میں مستقبل کی خبریں بتائے اور راز و اسرار کو جاننے کا دعویٰ کرے۔ (لسان العرب: 13؍363)
ازہری نے کہا ہے: عرب میں کہانت کا وجود سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور شہاب ستاروں کے ذریعے آسمان پر پہرے لگا دئیے گئے اور شیاطین وجنات کو چوری چھپے آسمان کی خبریں سننے اور انہیں کاہنوں تک پہنچانے سے روک دیا گیا، تو کہانت کا علم باطل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے کاہنوں کے باطل وکذب کو فرقان حمید کے ذریعے جس سے اللہ تعالیٰ حق وباطل میں فرق کرتا ہے، ناپید کر دیا۔ (لسان العرب: 13؍ 263)
’کتاب التوحید‘ میں ہے: کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آئندہ کے حالات کے بارے میں خبر دے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو دل کی بات بتائے۔ (حاشیہ کتاب التوحید عبد الرحمن بن محمد ص:206)
شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سوال کرنا ناجائز ہے۔ اور ان کی تصدیق کرنا اور بھی سخت گناہ اور حرام ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی وجہ سے کفر کے ضمن میں آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کاہن کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ وایتان الکہان)
(2).... مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا دوران حیض عورت سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ ذوالجلال نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰی یَطْهُرْنَ﴾ (البقرۃ: 222).... حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب مت جاؤ۔
حیض کی حالت میں ہم بستری کرنا شرعی طور پر بھی جائز نہیں اور طبعی لحاظ سے بھی جائز نہیں، اگر کوئی ہم بستری کر لے تو ایسے شخص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَتَصَدَّقُ بِدِیْنَارٍ اَوْ بِنِصْفِ دِیْنَارٍ)) (سنن ابي داود، رقم: 264۔ سنن ترمذي، رقم: 136۔ سنن ابن ماجہ، رقم: 640) وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔
(3).... یہ بھی معلوم ہوا عورت کی دبر میں ہم بستری کرنا بھی حرام ہے۔ اور اس میں عمل قوم لوط سے بھی مشابہت ہوتی ہے، قوم لوط کا جو انجام ہوا، اس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔ (دیکھئے: سورۃ الشعراء: 160 تا 175 اور سورۃ القمر: 33۔34)
مذکورہ بالاحدیث کے آخر میں ہے کہ جو یہ کام کرے گا ایسا شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے لا تعلق ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 99