Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4239
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَدِّي أَنَّ أَبَانَ بْنَ سَعِيدٍ أَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا قَاتِلُ ابْنِ قَوْقَلٍ"، وَقَالَ أَبَانُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ:" وَاعَجَبًا لَكَ وَبْرٌ تَدَأْدَأَ مِنْ قَدُومِ ضَأْنٍ يَنْعَى عَلَيَّ امْرَأً أَكْرَمَهُ اللَّهُ بِيَدِي وَمَنَعَهُ أَنْ يُهِينَنِي بِيَدِهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے میرے دادا نے خبر دی اور انہیں ابان بن سعید رضی اللہ عنہ نے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! یہ تو ابن قوقل کا قاتل ہے اور ابان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا حیرت ہے اس «وبر» پر جو قدوم الضان سے ابھی اترا ہے اور مجھ پر عیب لگاتا ہے ایک ایسے شخص پر کہ جس کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں (ابن قوقل رضی اللہ عنہ کو) عزت دی اور ایسا نہ ہونے دیا کہ ان کے ہاتھ سے مجھے ذلیل کرتا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4239 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4239  
حدیث حاشیہ:
حضرت ابان بن سعیدؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں نے ابن قوقل ؓ کو اگر شہید کیا تو وہ میرے کفر کا زمانہ تھا اور شہادت سے اللہ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے جو میرے ہاتھوں انہیں حاصل ہوئی۔
دوسری طرف اللہ تعالی کا یہ بھی فضل ہوا کہ کفر کی حالت میں ان کے ہاتھ سے مجھے قتل نہیں کروایا جو میری اخروی ذلت کا سبب بنتا اور اب میں مسلمان ہوں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔
لہذا اب ایسی باتوں کا ذ کر نہ کرنا بہتر ہے۔
آنحضرت ﷺ حضرت ابان ؓ کے اس بیان کو سن کر خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4239   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4239  
حدیث حاشیہ:
ابان بن سعید ؓ نے مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان ؓ کو اپنے ہاں پناہ دی تھی جب وہ (حضرت عثمان ؓ)
صلح حدیبیہ کے وقت مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کے نمائندے بن کر تشریف لائےتھے۔
ابان اس وقت کافر تھے اور صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔
سعید بن عاص بیان کرتے ہیں کہ بدر میں میرا والد قتل ہوگیا تو میرے چچا ابان نے میری پرورش کی اور یہ رسول اللہ ﷺ کا سخت ترین دشمن تھا اور آپ کو گالیاں دیتا تھا۔
میرا چچا شام کے علاقے میں گیا، واپس آیا توآپ ﷺ کو گالیاں دینے سے رک گیا۔
اس کا سبب دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ شام میں ایک راہب سے ملا تھا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کی صفات سے مجھے آگاہ کیا، اس وقت سے ان کی صداقت ان کے دل میں بیٹھ گئی، چنانچہ تھوڑی یر بعد وہ مدینہ طیبہ آکر مسلمان ہوگئے۔
انھوں نے غزوہ اُحد میں نعمان بن قوقل کو شہید کیا تھا۔
اس حدیث میں حضرت ابان ؓ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ اس ن ابن قوقل کو قتل کیا جبکہ وہ اس وقت کافر تھا اور حضرت نعمان بن قوقل مسلمان تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں میرے ہاتھوں مقام شہادت عطا فرمایا اور اگرنعمان ؓ اس وقت مجھے قتل کردیتے تو میں دونوں جہانوں میں ذلیل ورسوا ہوجاتا اور ہمیشہ جہنم کا ایندھن بن جاتا۔
دراصل حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابان ؓ دونوں نے ایک دوسرے پر اعتراض کیا اور رسول اللہ ﷺ سے کہا:
اسے مال غنیمت سے حصہ نہ دیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کا موقف تھا کہ یہ ابن قوقل کا قاتل ہے، اس بنا پر اسے قطعاً مال غنیمت سے کوئی حصہ نہ دیا جائے جبکہ ابان ؓ کہتے تھے کہ ضان پہاڑی سے اتر کر ہماری تقسیم میں خلل انداز ہونے کی تمھیں کیاضرورت ہے۔
بہرحاہل رسول اللہ ﷺ نے مجاہدین سے مشورے کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ کو اموال خیبر سے حصہ دیا لیکن ابان اوراس کے ساتھیوں کو کچھ نہ دیا۔
(فتح الباري: 615/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4239   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2827  
2827. حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2827]
حدیث حاشیہ:
روایت میں ابن قوقل سے مراد نعمان بن مالک ابن ثعلبہ بن احرم بن فہر بن غنم صحابی ہیں‘ قوقل ان کے دادا ثعلبہ کا لقب تھا‘ وہ احد کے دن ابان کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔
کہتے ہیں انہوں نے اس دن یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ! سورج ڈوبنے سے پہلے میں جنت کی سیر کروں‘ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔
وبر عرب میں بلی سے چھوٹا ایک جانور جس کی دم اور کان چھوٹے ہوتے ہیں۔
قدوم اور ضان جو لفظ آیا ہے بعضوں نے کہا یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قبیلہ دوس کے قریب تھا حضرت ابوہریرہ ؓ ادھر ہی کے باشندے تھے گویا ابان بن سعید نے حضرت ابوہریرہ ؓ پر یہ طعن کیا‘ ان کے پستہ قد ہونے کو وبر سے تشبیہ دی اور بکریوں کا گڈریا قرار دیتے ہوئے اپنے جرم کا اقرار بھی کیا مگر یہ کہ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے بعد میں اللہ نے دولت اسلام سے سرفراز کردیا۔
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
والمراد منه ھھنا قول أبان أکرمه اللہ علی یدي ولم بھنی علی یدیه و أراد بذالك أن النعمان استشھد بیر ابان فأکرمه اللہ بالشھادة ولم یقتل أبان علی کفرہ فیدخل النار وھو المراد بالإھانة بل عاش أبان حتی تاب و أسلم وکان إسلامه قبل خیبر بعد الحدبیة وقال ذالك الکلام بحضرة النبي صلی اللہ علیه وسلم وأقرہ علیه وموافق لما تضنمة للعرجمة (فتح الباري)
قول ابان سے یہاں مراد یہ کہ اللہ نے میرے ہاتھ پر ان کو عزت شہادت دی اور ان کے ہاتھوں سے قتل کرا کر مجھ کو ذلیل نہیں کیا‘ جس سے مراد لیا کہ نعمانؓ ابانؓ کے ہاتھ سے شہید ہوئے پس اللہ نے ان کا اکرام فرمایا اور ابان کفر پر نہیں مرا ورنہ دوزخ میں جاتا۔
اللہ نے ان کو حدیبیہ کے بعد اسلام نصیب فرمایا۔
ابان نے یہ باتیں آنحضرتﷺ کے سامنے بیان کیں آپؐ خاموش رہے‘ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔
آپؐ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا حصہ نہیں لگایا۔
اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں واحتج به من قال إن من حضر بعد فراغ الوقعة ولو کان خرج مددا لھم أن لا بشارك من حضرھا وھو قول الجمھور (فتح الباري)
یعنی اس سے دلیل لی اس نے جس نے کہا کہ جو شخص جنگ ہونے کے بعد حاضر ہو اگرچہ وہ مدد کرنے کے ہی لئے آیا ہو‘ اس کو حاضر ہونے والوں کے ساتھ حصوں میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
جمہور کا یہی قول ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2827   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2827  
2827. حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2827]
حدیث حاشیہ:

ابن قوتل کا نام نعمان بن مالک ہے۔
وہ میدان اُحد میں ابان بن سعید کے ہاتھوں شہید ہوئے تھےانھوں نےمیدان اُحد میں دعا کی تھی اےاللہ! غروب آفتاب سے پہلے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سورج غروب ہونے پہلے ہی شہید ہو گئے ابان بن سعید اس وقت کافر تھے پھر غزوہ احد کے بعد حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو گئے۔

امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت کے حقدار ہو سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر گناہ سے کوئی انسان توبہ کرلے تو پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
پھر اسے اس گناہ کے باعث شرمندہ کرنا درست نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2827