Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الايمان
ایمان کا بیان
غیر اللہ کی قسم اٹھانا منع ہے
حدیث نمبر: 71
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي امْرَأَةٌ، مِنَّا أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ:" لَا يَقُولُ أَحَدُكُمْ: لَوْلَا اللَّهُ وَفُلَانٌ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلْ: وَلَوْلَا اللَّهُ ثُمَّ فُلَانٌ".
عبداللہ بن یسار جہنی نے بیان کیا: ہمارے قبیلے کی ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: تم میں سے کوئی یوں نہ کہے: اگر اللہ اور فلاں نہ (کرتے) اگر اس نے ضرور کہنا ہی ہے تو یوں کہے: اگر اللہ نہ (کرتا) پھر فلاں۔

تخریج الحدیث: «السابق»

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 71 کے فوائد و مسائل
   الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 71  
فوائد:
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کعبہ کی قسم اٹھانا شرک ہے کیونکہ کعبہ اللہ کا غیر ہے اور جو بھی غیر اللہ کی قسم اٹھاتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔ جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰهِ فَقَدْ کَفَرَ اَوْ اَشْرَكَ۔)) .... جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کیا۔
شیخ عبداللہ بسام رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے: قدیم زمانوں سے لوگوں کا یہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ جس کی قسم کھائی جائے وہ قسم کھانے والے پر تسلط وغلبہ رکھتا ہے اور مافوق الاسباب بھی اسے نفع ونقصان دینے پر قادر ہے۔ جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری کردے تو وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور نفع پہنچاتا ہے اور اگر وہ راضی نہ ہو تو وہ اسے نقصان پہنچاتا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے علاوہ دوسروں کے نام کی قسم اٹھانا اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ (توضیح الاحکام: 7؍ 108)
امام الحرمین نے کہا: غیر اللہ کی قسم اٹھانا کم از کم مکروہ ہے اگر غیر اللہ کی قسم اٹھانے والا اپنے اعتقاد میں اس چیز کی اتنی تعظیم رکھتا ہے جتنی کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں رکھی جاتی ہے تو وہ اس اعتقاد کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اور اسی صورت کو اس حدیث کا مصداق بنایا جائے گا۔ لیکن اگر غیر اللہ کی قسم اٹھانے والا اپنے اعتقاد میں اُس چیز کی اتنی تعظیم رکھتا ہے جس کے وہ لائق ہے تو اس وجہ سے اسے کافر نہیں قرار دیا جاسکتا بہرحال اس کی قسم منعقد نہیں ہوگی۔ (فتح الباري: 11؍ 651، 652)
لیکن بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لیکن قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر خود غیر کی قسم کھائی ہے، مثلاً سورج، چاند وغیرہ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف اللہ ذوالجلال کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالیٰ جو کرے اس جیسا کرنا ہمارے لائق نہیں۔ لوگوں سے ان کے افعال کے متعلق تو سوال ہوگا لیکن اللہ ذوالجلال کے کیے ہوئے کے متعلق کوئی سوال نہیں کرسکتا کیونکہ وہ خالق، بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا اس طرح نہیں کہنا چاہیے کہ جو اللہ اور آپ چاہیں۔ کیونکہ اللہ ذوالجلال کی شان الوہیت میں کسی کو دخل نہیں ہے۔ خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور مقرب کیوں نہ ہو۔ ہوتا وہ ہی ہے جو اللہ ذوالجلال چاہے۔ کیونکہ جو اللہ چاہے اور پھر جو آپ چاہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ ذوالجلال چاہے گا صرف وہی ہوگا تو دوسرے شخص کی مشیت اللہ ذوالجلال کے تابع ہے۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
   مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 71