مسند اسحاق بن راهويه
كتاب الايمان
ایمان کا بیان
ایمان کا ناقص ہو جانا
حدیث نمبر: 58
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ فَضْلِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ))، فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: هَذَا الْإِسْلَامُ وَدَوَّرَ دَارَةً كَبيرَةً، وَهذَا الْإِيمَانُ وَدَوَّرَ دَارَةً صَغيرَةً فِي وَسْطِ الْكَبِيرَةِ، قَالَ: وَالْإِيمَانُ مَقْصُورٌ فِي الْإِسْلَامِ فَإِذَا زَنَى وَسَرَقَ خَرَجَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَى الْإِسْلَامِ وَلَا يُخْرِجُهُ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا الْكُفْرُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
ابوجعفر سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ”زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا، چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا۔“ کے متعلق پوچھا: گیا، تو ابوجعفر نے کہا: یہ اسلام ہے، اور انہوں نے ایک بڑا دائرہ لگایا، یہ ایمان ہے اور انہوں نے بڑے دائرے کے وسط میں ایک چھوٹا دائرہ لگایا، اور کہا: ایمان اسلام میں محدود ہے، پس جب وہ زنا اور چوری کرتا ہے تو وہ ایمان سے اسلام کی طرف نکل آتا ہے، اور اللہ کی ذات کے ساتھ کفر ہی اسے اسلام سے خارج کر سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «السنة لعبد اللفه بن احمد: 342/1. شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة للاكائي6، رقم: 1877. قوت القلوب لابي طالب المكي: 221/2»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 58 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 58
فوائد:
مذکورہ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب شخص مومن نہیں ہے۔ معتزلہ اور خوارج کا یہی مذہب ہے۔ جبکہ اہل سنت اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ شرک کے علاوہ دیگر گناہوں سے کوئی مومن کافر نہیں ہوتا البتہ اس کا ایمان ناقص ہو جاتا ہے۔ اگر وہ تائب ہو جائے تو اس کے گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اور اگر وہ کبائر کرتے کرتے فوت ہو جائے تو اللہ کی مشیت میں ہے کہ اسے بخش دے یا عذاب دے، یا یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ ایمان کی نفی سے مقصود زجر و توبیخ ہے تاکہ وہ کبیرہ گناہوں سے کنارہ کش رہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ بظاہر یہ جملہ خبریہ ہے لیکن درحقیقت نہی کا صیغہ ہے کہ مومن درحالت ایمان زنانہ کرے، شراب استعمال نہ کرے اور کسی کے مال پر ڈاکہ نہ ڈالے۔ (مرعاة المفاتیح: 1؍ 126)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل حق کا اجماع ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، سوائے شرک کے، بلکہ یہ ناقص ایمان والے ہیں۔ لہٰذا اگر تائب ہوگئے تو ان کی سزا ساقط ہو جائے گی اور اگر اسی حالت میں وفات پائی تو ان کا معاملہ اللہ ذوالجلال کے سپرد ہوگا۔ پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں معاف کر کے اولاً جنت میں داخل کر دے وگرنہ پہلے سزا دے گا اور بعد میں جنت میں داخل کرے گا۔ (شرح مسلم للنووی: ص164 طبعہ دار ابن حزم)
دوسری حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے آدمی جو مذکورہ بالا گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں دین اسلام سے خارج نہیں ہوتے جیسا کہ کہ حدیث میں ہے: ((وَلَا یُخْرِجُهٗ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا الْکُفْرُ بِاللّٰهِ۔))
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
((اِذَا زَنَی الرَّجُلُ خَرَجَ مِنْهُ الْاِیْمَانُ فَکَانَ فَوْقَ رَأْسِهٖ کَالظُّلَّهِ فَاِذَا خَرَجَ مِنْ ذٰلِکَ الْعَمَلِ عَادَ اِلَیْهِ الْاِیْمَانُ۔)) (مصنف عبدالرزاق، رقم: 13682)
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایمان نکلتا ہے لیکن بعد میں واپس لوٹ آتا ہے۔
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 58