Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
6. باب الذكر والدعاء
ذکر اور دعا کا بیان
حدیث نمبر: 1347
وعن شداد بن أوس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏سيد الاستغفار أن يقول العبد: اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بنعمتك علي وأبوء بذنبي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» ‏‏‏‏ أخرجه البخاري.
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدالاستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بنعمتك علي وأبوء بذنبي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! تو میرا مالک و مربی ہے۔ تیرے سوا اور کوئی الہٰ نہیں، تو نے مجھے پیدا فرمایا اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی بساط بھر تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ جس برائی کا میں ارتکاب کر چکا ہوں اس سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔ تیرے جو مجھ پر احسان ہیں ان کا میں اعتراف کرتا ہوں اور تیرے روبرو اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ پس مجھے معاف فرما دے کہ تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا اور کوئی بھی نہیں ہے۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الدعوات، باب أفضل الا ستغفار...، حديث:6306.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1347 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1347  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب أفضل الا ستغفار...، حديث:6306.»
تشریح:
اس حدیث کا بقیہ ارشاد نبوی یہ ہے کہ جس کسی نے اس دعا کو دل میں یقین رکھتے ہوئے صبح کے وقت پڑھا اور شام سے پہلے وفات پا گیا تو وہ اہل جنت میں سے ہے اور جس کسی نے اسے رات کے وقت یقین رکھتے ہوئے پڑھا اور وہ صبح سے پہلے فوت ہوگیا تو وہ بھی اہل جنت میں سے ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1347   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5524  
´اعمال کی برائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان اور اس حدیث میں عبداللہ بن بریدہ کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔`
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیدالاستغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: «اللہم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بذنبي وأبوء لك بنعمتك على فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا ہے، میں تیرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5524]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ترجمۃ الباب قائم کیا ہے اس سے ان کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کیے ہوئے کاموں کے شر اوران کےنقصان سے بچنے کے لیے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرے۔ شرعاً یہ مستحب اورپسندیدہ عمل ہے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا افضل استغفار ہے۔
(3) اہم وافضل یعنی اپنے الفاظ کی مناسبت سے اورجامع ہونے کے وجہ سے۔ عربی میں لفظ سید استعمال فرمایا گیا ہے جس کے لفظی معنیٰ سردار کے ہیں۔ ترجمہ میں لازم معنیٰ اختیار کیا گیا ہے تاکہ مقصود ظاہر ہو جائے۔
(4) استطاعت کےمطابق یہ دراصل اپنی کوتاہی اورعجز کا اعتراف ہے نہ کہ دعویٰ۔
(5) عہد ووعدے سے مراد فطری عہد بھی ہوسکتا ہے جسے عھد الست کہا جاتا ہے اورزبانی عہد بھی مثلاً کلمہ توحید ورسالت کی ادائیگی وغیرہ۔
(6) داخل ہوگا یعنی مرتے ہی اولیں طور پر۔ گویا اللہ تعالی اس عمل کی توفیق ہی اس شخص کو دے گا جس کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہو ورنہ ممکن ہے ایک شخص ساری زندگی یہ دعا پڑھتا رہے مگر موت والے دن یا رات نصیب نہ ہو۔ العیاذ باللہ۔ یا پڑھے توسہی مگر ایمان ویقین نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ایسی قبیح حالت سے بچائے۔ آمین۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5524   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3393  
´صبح و شام پڑھی جانے والی دعاؤں سے متعلق ایک اور باب۔`
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں «سيد الاستغفار» (طلب مغفرت کی دعاؤں میں سب سے اہم دعا) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے): «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت وأبوء لك بنعمتك علي وأعترف بذنوبي فاغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ و اقرار پر قائم ہوں، اور میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3393]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! تو میرا رب ہے،
تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں،
تو نے مجھے پیدا کیا،
میں تیرا بندہ ہوں،
میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ واقرار پر قائم ہوں،
اور میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے کئے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں تو نے مجھے جو نعمتیں دی ہیں،
ان کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں،
میں اپنے گناہوں کو تسلیم کرتا ہوں تو میرے گناہوں کو معاف کر دے،
کیوں کہ گناہ تو بس تو ہی معاف کر سکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3393   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6306  
6306. حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سید الاستغفار یہ (وظیفہ) ہے کہ تو کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں ان بری حرکتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کی ہیں۔ جو تیری نعمتیں ہیں میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس استغفار پر یقین رکھتے ہوئے دل کی گہرائی سے اسے پڑھا پھر شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت ان کو پڑھ لیا، پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6306]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے تحت ذکر کردہ آیات میں استغفار کی فضیلت بیان کی تھی، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے درج ذیل دعا پڑھی اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، خواہ وہ جنگ کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو:
(أستغفرالله العظيم الذي لا اله الا هو الحي القيوم و اتوب اليه)
میں عظمت والے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
وہ زندہ جاوید اور قائم رہنے والا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
(جامع الترمذي، الدعوات:
حدیث: 3577)
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بہترین استغفار کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ قوم کے سردار کو سید کہتے ہیں اور وہ سب سے افضل ہوتا ہے، اسی طرح استغفار کی تمام دعاؤں سے یہ دعائے استغفار افضل ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی اور انسان کی عاجزی اور درماندگی کا بیان ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کا بیان ہے جو اس کے بلند شان ہونے کی علامت ہیں۔
(فتح الباري: 121/11) (3)
واضح رہے کہ استغفار کی تین شرطیں ہیں:
٭ نیت کی درستی۔
٭ خالص توجہ۔
٭ آدابِ دعا کی پابندی۔
مذکورہ دعا کو اسی وقت سید الاستغفار کا درجہ حاصل ہوگا جب مذکورہ شرطیں پائی جائیں گی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6306   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6323  
6323. حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سب سے عمدہ استغفار یہ ہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں۔ (امکانی حد تک) میں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، تیری جو نعمتیں مجھ پر ہیں میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور گناہوں کا معترف ہوں۔ تيرے سوا میرے گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں۔ میں اپنے گندے کردار سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔ اگر کسی نے رات ہوتے یہ دعا پڑھی پھر فوت ہوگیا تو وہ جنت میں جائے گا یا وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اور اگر کسی نے یہ دعا صبح کے وقت پڑھی اور اسی دن کا انتقال ہوگیا تو بھی ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6323]
حدیث حاشیہ:
(1)
سید اس شخص کو کہتے ہیں جس کی طرف تمام معاملات نمٹانے کے لیے رجوع کیا جائے اور حوائج و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کا قصد کیا جائے۔
چونکہ یہ دعا توبہ کے تمام معانی پر مشتمل ہے، اس لیے اسے سید الاستغفار کا نام دیا گیا ہے، نیز اس میں بندے کی طرف سے اللہ رب العالمین کے کمال عظمت و جلال کے اقرار کے ساتھ انتہائی عاجزی اور بندگی کا اظہار ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سنن نسائی کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سید الاستغفار ضرور سیکھو اور اسے حرز جان بناؤ۔
(سنن الکبریٰ للنسائي، حدیث: 10301، و فتح الباري: 119/11)
صحیح بخاری کی دوسری روایات میں اس اعزاز کے حصول کے لیے ایک شرط بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص دل کے یقین سے یہ دعا پڑھے گا اسے جنت کی بشارت ہے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6306)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6323