Note: Copy Text and to word file

بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
6. باب الذكر والدعاء
ذکر اور دعا کا بیان
حدیث نمبر: 1346
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«‏‏‏‏إن أولى الناس بي يوم القيامة أكثرهم علي صلاة» أخرجه الترمذي وصححه ابن حبان.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر زیادہ درود پڑھنے والے ہوں گے۔ (ترمذی) ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:484، وابن حبان (الموارد)، حديث:2389.»

حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1346 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1346  
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:484، وابن حبان (الموارد)، حديث:2389.»
تشریح:
1. قیامت کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت اور قرب کا ذریعہ آپ پر کثرت سے دردو شریف پڑھنا ہے۔
2.اس حدیث سے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ اس میں حضرات محدثین رحمہم اللہ کی عظمت اور شان واضح ہوتی ہے کہ جو بولتے اور لکھتے وقت‘ دن رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتے ہیں۔
3. درود کے مختلف الفاظ احادیث میں منقول ہیں۔
سب سے افضل‘ درود ابراہیمی ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔
اس کی مزید تفصیل جلاء الأفھام اور القول البدیع میں موجود ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1346   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 484  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 484]
اردو حاشہ:
1؎:
سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے:
میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔

2؎:
یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

نوٹ:
(سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں،
اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں)
(التقریب)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 484