تخریج: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في النصيحة والحياطة، حديث:4918.»
تشریح:
1. مطلب یہ ہے کہ آئینہ جس طرح اپنے دیکھنے والے کے محاسن اور نقائص بلا کم و کاست اس کے سامنے رکھ دیتا ہے‘ اسی طرح ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کے لیے آئینے کا کام دیتا ہے‘ چنانچہ وہ اپنے بھائی کو عیوب اور نقائص پر متنبہ کر کے اسے خبردار کر دیتا ہے کہ اپنی اصلاح کر لے۔
2. یہ کام آئینہ صرف اپنے دیکھنے والے ہی کو بتاتا ہے‘ دوسرے کے روبرو چغلی نہیں کھاتا۔
3.آئینہ اتنا عیب و نقص ہی بتاتا ہے جتنا دیکھنے والے کے چہرے مہرے میں ہوتا ہے‘ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی نہیں کرتا اور اس کے سامنے بیان کرتا ہے‘ اس کی عدم موجودگی اور پیٹھ پیچھے ذکر نہیں کرتا۔
اسی طرح ایک مومن کو اپنے مومن بھائی کے سامنے اس کے عیوب بیان کرنے چاہئیں‘ اس کی عدم موجودگی میں نہیں اور اتنے عیوب ہی بیان کرنے چاہئیں جتنے حقیقت میں اس میں پائے جاتے ہوں‘ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی نہیں کرنی چاہیے۔
4.آئینہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی اپنے دیکھنے والے کے عیوب ہر ٹکڑے میں وہی دکھاتا ہے جو اس میں پائے جاتے ہیں‘ اسی طرح مومن کو اپنے بھائی سے ناراض ہو کر بھی اتنے ہی عیوب بیان کرنے چاہئیں جتنے فی الواقع اس میں پائے جاتے ہوں۔
5.آئینہ ٹوٹ کر اپنی اصلیت کھو نہیں دیتا‘ اسی طرح مومن کو اپنی اصلیت نہیں کھونی چاہیے۔
اور دوسرے مومن کو چاہیے کہ اپنے عیوب پر تنبیہ کو اپنے لیے سچی خیر خواہی اور حقیقی ہمدردی سمجھے۔