Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
32. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقِبْلَةِ، وَمَنْ لاَ يَرَى الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا فَصَلَّى إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ:
باب: قبلہ سے متعلق مزید احادیث اور جس نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھول سے قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس پر نماز کا لوٹانا واجب نہیں ہے۔
وَقَدْ سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيِ الظُّهْرِ، وَأَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ بِوَجْهِهِ، ثُمَّ أَتَمَّ مَا بَقِيَ.
‏‏‏‏ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، پھر (یاد دلانے پر) باقی نماز پوری کی۔
حدیث نمبر: 402
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، فَقُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى؟ فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، وَآيَةُ الْحِجَابِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمَرْتَ نِسَاءَكَ أَنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُكَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ، وَاجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ، أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ"، وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا بِهَذَا.
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے حمید کے واسطہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری تین باتوں میں جو میرے منہ سے نکلا میرے رب نے ویسا ہی حکم فرمایا۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو دوسری آیت پردہ کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ کاش! آپ اپنی عورتوں کو پردہ کا حکم دیتے، کیونکہ ان سے اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ بات کرتے ہیں۔ اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی «عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن‏» اور سعید ابن ابی مریم نے کہا کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 402 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 402  
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ حمید کاسماع انس ؓ سے معلوم ہوجائے اوریحییٰ بن ایوب اگرچہ ضعیف ہے مگرامام بخاری ؒ نے ان کی روایت بطور متابعت قبول فرمائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 402   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:402  
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ آیت مذکور میں"مقام ابراهیم" سے مرادکعبہ شریف ہے۔
جیسا کہ اس کی تفسیر میں یہ قول نقل ہوا ہے اور یہ باب بھی قبلے کے متعلق ہے۔
یا اس سے مراد کل حرم ہے۔
اس صورت میں من تبیضیہ ہوگا اور مصلی سے مرادقبلہ ہے جو آفاق والوں کے حق میں ہے۔
یا اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کھڑے ہوکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔
اس صورت میں مطابقت قبلہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ متعلقات قبلہ کے لحاظ سے ہوگی۔
(فتح الباري: 655/1)
علامہ کرمانی ؒ نے امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھاکہ جس پتھر پر حضرت ابراہیم ؑ کے پاؤں کے نشانات ثبت ہیں، اسے قبلے کے سامنے جائے نماز بنایا جائے، یعنی امام اس کے پاس کھڑا ہوتو اس خواہش کے احترام میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
(شرح الکرماني: 67/4)

حمید طویل نے حضرت انس ؓ سے یہ روایت بصیغہ عَن بیان کی ہے۔
اس انداز میں تدلیس کا شبہ تھا۔
اس کے ازالے کے لیے امام بخاری ؒ نے ابن ابی مریم کا طریق بیان کیا ہے جس میں حمید طویل اپنے سماع کی صراحت کرتے ہوئے حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 655/1)
امام بخاری ؒ کا اس مقام پر یہ روایت لانے کا اتنا ہی مقصد تھا جوہم نے بیان کردیا ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب المناقب میں بیان ہو گی۔
وہاں ہم ثابت کریں گے کہ حضرت عمر ؓ واقعی اس امت میں فتن ومحن کی روک تھام کے لیے ایک دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔
بدقسمتی سے اس دروازے کو بزور توڑا گیا۔
اس دروازے کو توڑنے کا پس منظر، پیش منظر اور تہ منظر ہم وہاں بیان کریں گے اور ان عوامل ومحرکات سے پردہ اٹھائیں گے جو اس واقعہ جانکاہ میں کارفرماتھے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔

واضح رہے کہ حضر ت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کبھی بھی کوئی ایساحادثہ پیش نہیں آیا جس میں دوسروں نے ایک رائے دی ہو اور حضرت عمر ؓ نے کسی دوسری رائے کا اظہار کیا ہو مگر قرآن مجید حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق اترتا۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3682)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت موافقت حضرت عمر ؓ کے حق میں ہے، لیکن نقل کے اعتبار سے تعین کے ساتھ پندرہ چیزوں میں موافقت ہمارے علم میں آئی ہے۔
جسے"موافقات عمر" کا نا م دیا جاسکتاہے۔
(فتح الباري: 654/1)
موافقات عمر کی تشریح بھی کتاب المناقب میں بیان ہوگی۔
إن شاء اللہ۔

بعض اہل علم کی طرف سے امام بخاریؒ پر یہ اعتراض ہوا کہ اس حدیث کو سابق باب میں لانا چاہیے تھا جو اس آیت کے متعلق ہی قائم کیاگیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہاں حدیث ابن عمر ؓ بیان کی ہے جس میں صراحت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کی دورکعت میں مقام ابراہیم کوقبلہ نماز بنایا جبکہ حدیث عمر میں اس قسم کی صراحت نہ تھی، اس لیے اسے یہاں متعلقات قبلہ کے سلسلے میں بیان کیاگیا ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 654۔
655/1)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 402   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2959  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کر لو (البقرہ: ۱۲۵) نازل ہوئی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2959]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو (البقرہ: 125) اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے،
لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں،
کوئی حرج نہیں ہے۔

2؎:
مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2959   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4790  
4790. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کے ہاں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں (کیا اچھا ہو) اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں، تب اللہ تعالٰی نے آیت حجاب نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4790]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو حکم دیں کہ وہ پردے میں رہا کریں کیونکہ ان سے نیک اور بدسب ہی بلا حجاب ہم کلام ہوتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 402)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت غیرت مند تھے۔
انھیں حرم نبوی پر اجنبی لوگوں کی اطلاع پانے اور ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین سے بلا روک ٹوک ہم کلام ہونے سے سخت نفرت تھی۔
انھوں نے صراحت کے ساتھ عرض کردیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی بیویوں کو پردے میں رکھیں بلکہ انھیں تو یہ بھی ناگوار تھا کہ ان کی شخصیت بھی نظر آئے خواہ وہ باہر ہی کیوں نہ ہوں جس کی صراحت آئندہ کی جائے گی۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4790