Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4219
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَرَخَّصَ فِي الْخَيْلِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے ‘ ان سے عمرو نے ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر گدھے کے گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4219 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4219  
حدیث حاشیہ:
امام شافعی ؒ نے بھی اس حدیث کی بنا پر گھوڑے کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4219   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4219  
حدیث حاشیہ:

حضرت جابر ؓ کی روایت میں گدھوں سے مراد گھریلو اور پالتو گدھے ہیں۔
یہ حرمت قطعی اور ہمیشہ کے لیے ہے، البتہ جنگلی گدھا اس حدیث میں شامل نہیں ہے جسے حمار وحشی(گورخر)
کہا جاتا ہے۔
وہ نہایت چست وچالاک ہوتا ہے اور نجاست بھی نہیں کھاتا، اس لیے اس کا کھانا اب بھی جائز ہے اور اسکی حلت پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

اس حدیث میں گھوڑے کی حلت کا ذکر ہے، بلاشبہ گھوڑا ایک حلال جانور ہے۔
اس واضح نص کے باوجود بھی کچھ فقہاء نے اسے حرام قراردیا ہے۔
حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے عہدمبارک میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا تھا۔
(شرح صحیح مسلم للنووي: 255/9، 259)
بہرحال گھوڑا حلال ہے، اگر کسی کا دل نہ چاہے تو نہ کھائے لیکن اس کی حرمت کا فتوی جاری نہ کرے۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ کتاب الاطعمہ میں بیان کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4219   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1136  
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت کی تھی۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی روایت میں ہے «أذن» کے بجائے «رخص» کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1136»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة خيبر، حديث:4219، ومسلم، الصيد والذبائح، باب إباحة أكل لحم الخيل، حديث:1941.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خیبر کے روز گھریلو گدھوں کا گوشت کھانا حرام قرار دیا گیا۔
اس سے پہلے اس کی اجازت تھی۔
تو گویا احکام بتدریج نافذ کیے گئے ہیں۔
2. حرام کیے جانے کی وجہ جیسا کہ بخاری میں بھی آیا ہے کہ یہ ناپاک و پلید حیوان ہے۔
جمہور علماء‘ صحابہ و تابعین وغیرہ اسی طرف گئے ہیں۔
3. یہ بھی معلوم ہوا کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے۔
4. رخصت اور اذن کا لفظ غالباً اس لیے فرمایا کہ گھوڑوں کی کمی کی وجہ سے تنزیہی طور پر ممنوع قرار دیا تھا‘ پھر رخصت دے دی۔
زیدبن علی‘ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے شاگردان رشید ابویوسف اور محمد اور امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور سلف و خلف رحمہم اللہ کے سب علماء اس کی حلت کے قائل ہیں لیکن امام مالک اور ابوحنیفہ رحمہما اللہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت حرام ہے۔
مگر یہ اور اسی موضوع کی دوسری احادیث صریحاً ان کے خلاف ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1136   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5022  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5022]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے،
جمہور سلف و خلف کا یہی نظریہ ہے،
علقمہ،
اسود،
نخعی،
حماد بن سلیمان اور صاحبین کا بھی یہی قول ہے اور امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ ہے،
بعض کے بقول امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی،
سعیدی صاحب نے ائمہ احناف کے اقوال نقل کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے،
اس باب میں جو احادیث صحیحہ وارد ہیں،
وہ سب گھوڑے کی حلت میں نصوص صریحہ ہیں اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی صراحت کے بعد پھر کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
(شرح صحیح مسلم،
ج 6،
ص 105)

۔
اس سے پہلے لکھا ہے،
قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں گھوڑے کا گوشت کھانا بلا کراہت جائز ہے،
وجہ استدلال یہ ہے کہ گھوڑا پاک اور طیب جانور ہے،
اس بنا پر فقہائے احناف نے بھی گھوڑے کا جوٹھا پاک قرار دیا ہے،
(ص 104،
ج 6)

۔
علامہ تقی نے لکھا ہے،
امام ابوحنیفہ نے گھوڑے کو اس کے احترام اور آلات جہاد میں سے ہونے کے باعث مکروہ قرار دیا ہے،
(تکملہ ج 3،
ص 529)

۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ جدید اسلحہ کے سبب اب اس کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہے،
اس لیے یہ سبب اگر اس کو سبب مان لیا جائے تو ختم ہو چکا ہے،
کہ بقول امام حصفکی امام صاحب نے اپنی موت سے تین دن قبل،
حرمت کے قول سے رجوع کر لیا تھا۔
(تکملہ ج 3 ص 525۔
درمختار علی حاشیہ رد المختار ج 5 ص 265)

۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5022