بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1296
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «المستبان ما قالا فعلى الباديء ما لم يعتد المظلوم» . أخرجه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” گالی گلوچ کرنے والے دو آدمیوں میں سے ابتداء کرنے والے پر بار گناہ ہے تاوقتیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے۔“ (مسلم)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب النهي عن السباب، حديث:2587.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1296 کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1296
تخریج:
[مسلم، البر والصلته/68]
[تحفته الاشراف 232/10]
فوائد:
گالی کا بدلہ لینے کا جواز:
اس حدیث میں اس شخص سے بدلہ لینے کو جائز رکھا گیا ہے جو گالی دینے میں پہل کرے بشرطیکہ بدلہ لینے والا صرف اتنی گالی پر صبر کرے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ پہل کرنے والے کی گردن پر ہو گا۔ کیونکہ گالی گلوچ کے اس سلسلے کا اصل باعث وہ بنا ہے۔
«فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ» [2-البقرة:194]
”تو جو شخص تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر کی ہے۔“
جواب میں گالی دینے سے پرہیز کی فضیلت:
لیکن اگر یہ صبر کرے اور برداشت کرے تو یہ افضل ہے اور باعث ثواب ہے کیوں کہ جب جواب شروع ہو جائے تو اکثر اوقات زیادتی ہو جاتی ہے اور شیطان کو دخل دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ» [42-الشورى:40]
”اور برائی کی جزا اس کی مثل برائی ہے پھر جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ تعجب کرتے رہے اور مسکراتے رہے جب اس نے زیادہ ہی برا بھلا کہا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی کسی بات کا جواب دے دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور (وہاں سے) اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے جا کر آپ سے ملے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے جب میں نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو آپ غصے سے اٹھ گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا جب تم نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو شیطان آ گھسا سو میں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ [مسند احمد 2/436]
اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں [هيثمي]
البانی نے اسے حسن کہا۔ دیکھیے: صحیح ابی داود [4897 ]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 200
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4894
´باہم گالی گلوچ کرنے والوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہم گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ کہتے ہیں اس کا گناہ اس شخص پر ہو گا جس نے ابتداء کی ہو گی جب تک کہ مظلوم اس سے تجاوز نہ کرے“ (اگر وہ تجاوز کر جائے تو زیادتی و تجاوز کا گناہ اس پر ہو گا)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4894]
فوائد ومسائل:
جو شخص کسی گناہ کا سبب بنے تو مقابل کے گناہ کا وبال بھی ابتدا کرنے والے ہی کے سر ہوتا ہے۔
الا یہ کہ مقابل زیادتی کر جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4894
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1981
´گالی گلوچ کی مذمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گالی گلوچ کرنے والے دو آدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہو گا، جب تک مظلوم حد سے آگے نہ بڑھ جائے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1981]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اگرمظلوم بدلہ لینے میں ظالم سے تجاوز کرجائے توایسی صورت میں دونوں کے گالی گلوج کا وبال اسی مظلوم کے سر ہوگا نہ کہ ظالم کے سر۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1981
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6591
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"باہمی گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ بھی کہتے ہیں، اس کا وبال گناہ ابتدا کرنے والے پر ہے بشرطیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے، حد سے تجاوز نہ کرے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6591]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ظالم سے بدلہ اور انتقام لینے کی اجازت ہے،
اگرچہ عفو اور درگزر سے کام لینا افضل ہے اور بدلہ یہی ہے کہ جو بات اس نے کہی،
جوابا وہی بات اس کو کہہ دی جائے،
اس صورت میں آغاز کرنے والا گناہگار ہو گا۔
لیکن اگر وہ جوابا اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے تو وہ بھی گناہ میں شریک ہے اور اپنے کیے کی سزا بھگتے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6591