بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
3. باب الزهد والورع
دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
حدیث نمبر: 1276
وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «الصمت حكمة وقليل فاعله» . أخرجه البيهقي في الشعب بسند ضعيف وصحح أنه موقوف من قول لقمان الحکيم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” خاموشی حکمت و دانائی ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔“ اسے بیہقی نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ لقمان حکیم کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي في شعب الإيمان:4 /264، حدث:5027 وقال: "غلط في هذا عثمان بن سعيد (الكاتب) هذا والصحيح رواية ثابت " عثمان الكاتب ضعيف (تقريب) وله طريق آخر ضعيف جدًا عند القضاعي في مسند الشهاب، حديث:241، وقول لقمان حكيم: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، حديث:5026، وابن حبان في روضة العقلاء، ص:41 وهوصحيح عن أنس.»
حكم دارالسلام: ضعيف
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1276 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1276
تخریج: «أخرجه البيهقي في شعب الإيمان:4 /264، حدث:5027 وقال: "غلط في هذا عثمان بن سعيد (الكاتب) هذا والصحيح رواية ثابت " عثمان الكاتب ضعيف (تقريب) وله طريق آخر ضعيف جدًا عند القضاعي في مسند الشهاب، حديث:241، وقول لقمان حكيم: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، حديث:5026، وابن حبان في روضة العقلاء، ص:41 وهوصحيح عن أنس.»
تشریح:
اس روایت میں خاموش و مہر برلب رہنے کو حکمت و دانائی اور عقلمندی و دانش مندی قرار دیا گیا ہے۔
یہ گو حضرت لقمان کا قول ہے مگر بہت سی احادیث میں خاموشی کی تائید اور فضول گوئی کی مذمت موجود ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
«مَنْ صَمَتَ نَجَا» ”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
“ (مسند أحمد: ۲ /۱۵۹‘ ۱۷۷، وجامع الترمذي‘ صفۃ القیامۃ‘ حدیث:۲۵۰۱) اور ایک حدیث میں ہے:
«مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ» ”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔
“ (صحیح البخاري‘ الأدب‘ حدیث:۶۰۱۸‘ ۶۰۱۹‘ ۶۱۳۵و ۶۴۷۶) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1276