بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
3. باب الزهد والورع
دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
حدیث نمبر: 1270
وعن ابن عباس قال: كنت خلف النبي صلى الله عليه وآله وسلم يوما فقال: «يا غلام احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك وإذا سألت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله» . رواه الترمذي وقال: حسن صحيح.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (کھڑا) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے لڑکے! تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر اللہ تعالیٰ تیری نگہبانی کرے گا۔ تو اللہ کی طرف دھیان رکھ تو اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ اور جب تو کچھ مانگے تو (صرف) اللہ تعالیٰ سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو (بس) اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ۔“ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن نے صحیح کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، صفة القيامة، باب:59، حديث:2516.»
حكم دارالسلام: حسن
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1270 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1270
تخریج: «أخرجه الترمذي، صفة القيامة، باب:59، حديث:2516.»
تشریح:
1. اس حدیث میں خالص توحید کی بہترین انداز میں تعلیم دی گئی ہے۔
2.اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی مقرر کرد حدود اور اس کے اوامر و نواہی کا ہر وقت پوری طرح خیال رکھا جائے‘ خود بھی ان سے بچنے کی کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جائے۔
3.اللہ کی حفاظت کا مطلب ہے کہ وہ ایسے بندے کو دنیوی مصائب و آلام سے بچائے گا‘ ان سے بچنے کا راستہ سمجھائے گا اور قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔
4.اس حدیث کا باقی ماندہ حصہ یوں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”اور جان لے کہ اگر ساری دنیا والے مل کر تیرا کچھ سنوارنا چاہیں تو صرف اتنا نفع ہی پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر نقصان پہنچانا چاہیں تب بھی صرف اتنا ہی پہنچا سکیں گے جتنا اللہ نے لکھ دیا ہے
(کیونکہ) تقدیر لکھنے والی قلمیں خشک ہو چکی ہیں اور دفتر لپیٹ کر بند کر دیے گئے ہیں۔
(اب ان میں اضافے یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں۔
“) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1270
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1270
تخریج:
«صحيح»
[ترمذي 2516]
[صحيح الترمذي 2043]
ترمذی میں بقیہ حدیث یہ ہے:
”اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کوئی فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے، مگر جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیے گئے۔“
فوائد:
➊ اللہ کا دھیان رکھ
یعنی اللہ کی حدود، اس کے احکام، اس کی منع کی ہوئی چیزوں اور اس کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کا دھیان رکھ۔ اللہ کی حد آ جائے تو اس سے آگے مت بڑھ، حکم آ جائے تو اس پر عمل کر، وہ منع کر دے تو رک جا۔ غرض ہر کام کرتے وقت اللہ تعالیٰ انسان کی یاد میں رہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
«وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّـهِ» [9-التوبة:112]
”اور وہ جو اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
اور فرمایا:
«هَـذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ» [50-ق:32]
”یہ وہ ہے جس کا تو وعدہ دیئے جاتے ہو ہر رجوع کرنے والے حفاظت کرنے والے کے لیے۔“
اہل علم نے یہاں «حفيظ» کا مطلب بیان فرمایا: ”اللہ کے احکام کی حفاظت کرنے والا“
بعض نے فرمایا: ”اپنے گناہوں کا دھیان رکھنے والا یعنی اگر کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً پلٹ آتا ہے۔“
➋ وہ تیرا دھیان رکھے گا
جس طرح فرمایا:
«فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ» [2-البقرة:152]
”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔“
اللہ تعالیٰ بندے کا دھیان دنیا کے معاملے میں بھی رکھتا ہے اور آخرت کے معاملے میں بھی دنیا میں اسے اس کے جسم میں اہل و عیال میں اور مال و اولاد میں عافیت دیتا ہے فرشتے ہر تکلیف دہ چیز سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
«لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ» [13-الرعد:11]
”اس کے لیے باری باری (حفاظت کے لئے) آنے والے ہیں اس کے آگے اور اس کے پیچھے جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔“
آخرت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ بندے کے دین و ایمان کی حفاظت رکھتا ہے اسے گمراہ کن خواہشات و نظریات و اعمال سے محفوظ رکھتا ہے، اسے ایمان کی حالت میں موت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا پورا ادراک ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ کس طرح ہماری حفاظت فرما رہا ہے۔
➌ تو اسے اپنے سامنے پائے گا
جب بندہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی حدود کی حفاظت کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت میرے ساتھ ہے۔ اس کی مدد ہر وقت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ہی ساتھ ہے جیسے فرمایا:
«وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ» [57-الحديد:4]
”اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔“
مگر یہ خاص معیت ہے جو اللہ کو یاد رکھنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا:
«لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا» [9-التوبة:40]
”کچھ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“
اور فرمایا:
«لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى» [20-طه:46]
”تم مت ڈرنا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔“
اس معیت سے مراد خاص حفاظت اور نصرت ہے۔
➍ جب سوال کرے تو اللہ سے سوال کر
کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال سے خوش ہوتا ہے۔ سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من لم يسال الله يغضب عليه» ”جو اللہ سے سوال نہ کرے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔“ [صحيح الترمذي عن ابي هريره رضى الله عنه 2682]
اس کے برعکس بندوں سے مانگیں تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔
؎ «الله يغضب ان تركت سواله ... وتري ابن آدم حين يسئل يغضب»
”اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تم اس سے سوال کرنا چھوڑ دو اور ابن آدم کو دیکھو گے کہ وہ اس وقت غصے ہو گا جب اس سے سوال کیا جائے۔“
ایک اور شاعر نے کہا ہے۔
؎ «ابا مالك لا تسال الناس والتمس»
«بكفيك فضل الله فالله اوسع»
«ولوسئل الناس التراب لاوشكوا»
«اذا قيل هاتوا ان يملوا ويمنعوا»
”اے ابومالک لوگوں سے سوال مت کر اور دونوں ہاتھوں سے اللہ کا فضل مانگ کیوں کے اللہ سب سے وسعت والا ہے لوگوں سے تو اگر مٹی کا سوال کیا جائے تو جلد ہی ان کا یہ حال ہو جائے گا کہ مانگنے پر اکتا کر مٹی دینے سے بھی انکار کر دیں گے۔“
➎ وہ چیزیں جو صرف اللہ کے اختیار میں ہیں
مثلاً ہدایت، صحت، دولتمندی، اولاد، فتح و نصرت وغیرہ ان سب کا سوال صرف اللہ سے جائز ہے اور ان چیزوں میں مدد بھی اللہ سے ہی مانگی جائے گی۔
«إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ» [1-الفاتحة:2] ”ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں“ غیر سے مانگے گا تو مشرک ہو جائے گا۔ اور جو چیزیں بندوں کے اختیار میں ہیں یا اس کا دوسرے پر حق ہیں مثلاً کسی کے پاس کھانے کی چیز موجود ہے تو مانگ لینا کوئی شخص کسی ظالم کا ظلم دور کرنے میں یا کسی اور کام میں مدد کر سکتا ہے تو اس سے مدد مانگ لینا جائز ہے جیسا کہ موسیٰ اور خضر علیہ السلام نے بستی والوں سے کھانا مانگا تھا اور عیسی بن مریم علیہ السلام نے فرمایا تھا: «مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ» [3-آل عمران:52] ”کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں“ کیونکہ مہمان نوازی اور دین میں نصرت طلب کرنا مہمان اور داعی کا حق ہے۔
ان چیزوں میں بھی اصل امید اللہ سے ہی رکھے کہ وہ چاہے گا تو مخلوق کے دل اس کی طرف مائل کر دے گا۔ گویا اصل سوال اور استعانت اللہ تعالیٰ سے ہی کرے۔
جہاں تک ہو سکے معمولی چیزوں میں بھی مخلوق سے سوال کرنے سے بچے کیونکہ سوال کرنا اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے ذلیل کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ایک جماعت سے بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے سوال نہیں کریں گے ان میں کسی کا کوڑا تک گر جاتا تو وہ کسی سے پکڑانے کے لئے نہیں کہتا تھا اس جماعت میں آٹھ یا نو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ [صحيح مسلم، كتاب الزكاة 1043 ]
➏ جب مدد مانگے تو اللہ سے مانگ
کیونکہ اگر اللہ مدد نہ کرے تو کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ نہ اللہ کی بندگی نہ دنیا کا کوئی کام۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی:
«رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ» [صحيح النسائي 1236]
”اے اللہ اپنی یاد پر، اپنے شکر پر اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔“
اور یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا:
«وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ» [12-يوسف:18]
”جو تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مددگار ہے۔“
➐ اس حدیث میں جو چار وصیتیں کی گئی ہیں ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دنیا کے اسباب سے قطع تعلق کر لے کیونکہ یہ بھی اللہ سے سوال اور اس سے استعانت میں شامل ہیں۔ جو شخص ان ذرائع سے رزق طلب کرے جو اللہ نے مقرر فرمائے ہیں تو اگر مل جائے تو اللہ ہی کی طرف سے ہے نہ ملے تو وہ بھی اس کی مرضی سے ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصل بھروسہ اور امید صرف اللہ سے ہونی چاہیے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 2516
´جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو`
«. . . احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ . . .»
”. . . تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے . . .“ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: 2516]
فوائد و مسائل
اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ ایسی اشیاء کے حصول کے لئے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں ہیں،، مخلوق میں سے کسی فرد کو پکارنا شرک ہے اور پھر مردہ کو جو نہ سن سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
« ﴿وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ﴾ »
” اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر تو نے یہ کام کیا تو ظالموں میں شمار ہو گا۔“ [10-يونس:106]
↰ اس آ یت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ہے کہ کوئی غیر اللہ کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
« ﴿وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ﴾ »
” اگر اللہ تعالیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کر دے تو اس مصیبت کو دور کر نے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں۔“ [10-يونس:108]
❀ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
«واعلم ان الامة لو اجتمعت على ان ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك»
” جان لو! اگر ساری امت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہ جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔“ [ترمذي، كتاب صفةالقيامة: باب منه 2516]
✿ قرآن کریم میں ایک مقام پر ہے:
« ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّـهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّـهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ﴾ »
” بے شک جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، وہ تمھارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ پس تم اللہ تعالیٰٰ کے ہاں سے رزق مانگو اور اس کی عبادت کرو۔“ [29-العنكبوت:17]
✿ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
« ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّـهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ * وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ﴾ »
” اور ایسے لوگوں سے زیادہ کون گمراہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک ان کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادات سے انکار کر دیں گے۔“ [46-الأحقاف:5، 6]
↰ اس آ یت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ غیر اللہ کو حاجت روائی کے لیے پکارنا ان کی عبادت ہے حالانکہ انسان صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
✿ قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
« ﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ﴾ »
”مجبور و بے بس شخص کی دعا کو قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے؟“ [27-النمل:62]
↰ یہ چند دلائل ہیں ورنہ اس کے بیان کے لیے قرآن و سنت میں کئی نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل اللہ کے سوا کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراف کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بزرگ دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ لیکن حالت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر انھیں کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا۔ اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصاً خلفائے راشدین کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سامنا تھا، وہ ضرور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے۔ بالکل اسی طرح دعا کا مسئلہ ہے۔ ان جلیل القدر صحابہ میں سے کسی نے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آ کر یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے دعا کر دیں۔ ہاں! زندگی میں جو واقعتاً بزرگ ہو اس سے دعا کروانا درست ہے اور اس میں بھی بزرگ نہیں مانگا جاتا بلکہ اس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے ہماری بہتری کے لیے دعا کرے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 23
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2516
´باب:۔۔۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2516]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا،
اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے،
نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے،
بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2516