تخریج: «أخرجه أحمد:2 /181، 182 «والترمذي الأدب، حديث:2819 بلفظ آخر وحديثه صحيح»، والنسائي، الزكاة، حديث:2560، وابن ماجه، اللباس، حديث:3605، والبخاري تعليقًا، اللباس، قبل حديث:5783، قتادة مدلس عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے‘ نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۱ /۲۹۴‘ ۲۹۵‘ وھدایۃ الرواۃ:۴ /۲۱۷‘ ۲۱۸) 2. اس حدیث میں اسراف اور تکبر سے منع کیا گیا ہے‘ خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو‘ لباس سے ہو یا صدقہ و خیرات سے۔
یہ دونوں بہر آئینہ ناجائز ہیں کیونکہ کسی بھی چیز میں اسراف‘ جسم وجان اور معیشت کے لیے ضرر رساں ہوتا ہے اور انسان کو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے اور اس سے انسان کا نفس برباد ہو جاتا ہے۔
اور تکبر بھی انسان میں چونکہ خود پسندی اور اتراہٹ پیدا کرتا ہے‘ اس لیے یہ بھی دنیا و آخرت میں نقصان دہ ہے۔
آخرت کے اعتبار سے تو اس طرح کہ انسان کبیرہ گناہ کا مرتکب ٹھہرتا ہے اور دنیا میں اس طرح کہ ایسا انسان لوگوں کی نظروں میں مبغوض اور حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔