بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
1. باب الأدب
ادب کا بیان
حدیث نمبر: 1245
وعنه رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا عطس أحدكم فليقل: الحمد لله وليقل له أخوه: يرحمك الله فإذا قال له يرحمك الله فليقل: يهديكم الله ويصلح بالكم» أخرجه البخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے «الحمد الله» سب تعریف اللہ کے لئے ہے کہنا چاہیئے اور اس کا بھائی اسے «يرحمك الله» اللہ تجھ پر رحم کرے کہے۔ پھر چھینک مارنے والا جواباً کہے «يهديكم الله ويصلح بالكم» اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست فرمائے۔“ (بخاری)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأدب، باب إذا عطس كيف يشمت، حديث:6224.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1245 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1245
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب إذا عطس كيف يشمت، حديث:6224.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آئے تو الحمدللّٰہ کہنا چاہیے اور سننے والے کو اس کا جواب دینا چاہیے۔
اور جواب تین بار تک چھینک آئے تو دینا چاہیے‘ اس سے زیادہ ہوتو نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”اپنے بھائی کو تین دفعہ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہو۔
اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔
“ (سنن أبي داود‘ الأدب‘ باب کم یشمت العاطس‘ حدیث:۵۰۳۴) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1245
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1245
تخریج:
[بخاري: 6224]،
[بلوغ المرام: 1245]،
[تحفة الاشراف: 423/7]
فوائد:
چھینک پر الحمد للہ کہنے کا جواب:
➊ چھینک کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله» کہے اس کا بھائی یا ساتھی اسے
«يرحمك الله» کہے جب وہ «يرحمك الله» کہے تو یہ کہے «يهديكم الله ويصلح بالكم» الله تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔ [بخاري عن ابي هريره رضی اللہ عنہ]
➋ چھینک آنے پر کم از کم الحمد للہ کہنا واجب ہے۔ اگر اس کے ساتھ «على كل حال» پڑھا جائے تو بہتر ہے ترمذی میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے «الحمد لله على كل حال» دیکھئیے [صحيح الترمذي۔ 2202]
➌ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے۔ «الحمد لله رب العالمين» جواب دینے والا کہے «يرحمك الله» اور وہ خود کہے «يغفرالله لي ولكم» [صحيح الاسناد موقوف صحيح الأدب المفرد 715 - 934] یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
➍ على رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص چھینک سن کر کہے: «الحمد لله رب العالمين على كل حال ما كان» اسے کبھی ڈاڑھ اور کان کا درد نہیں ہو گا۔ [الادب المفرد للبخاري 949]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں اور اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی اس لئے یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ [فتح الباري]
مگر شیخ البانی نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ یہ ابواسحاق سبیعی کی روایت سے ہے اور انہیں اختلاط ہو گیا تھا۔ اس لئے حافظ نے بھی اسے صحیح نہیں کہا۔ [ضعيف الادب المفرد 926/148]
➎ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا:
«الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى»
”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے تعریف بہت زیادہ پاکیزہ جس میں برکت کی گئی ہے جس پر برکت نازل کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارا رب محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے۔“
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: نماز میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں- تین دفعہ پوچھا - میں نے عرض کیا۔ میں نے کہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تیس سے زیادہ فرشتے اس کی طرف جلدی سے بڑھے کہ ان میں سے کون اسے لے کر اوپر چڑھے۔ [حسن، صحيح ابي داود 700 و صحيح ترمذي 331]
اس سے معلوم ہوا چھینک آنے پر یہ الفاظ کہے تو اور زیادہ ثواب ہے۔
➏ نماز میں چھینک آنے پر بھی «الحمد لله» ضرور کہنا چاہئیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے آدمی سے خطاب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قرأت ہے۔ [مسلم]
➐ جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے اسے «يرحمك الله» نہیں کرنا چاہئے۔ [بخاري باب لا يشمت العاطس اذا لم يحمد الله]
➑ غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے «يرحمك الله» نہیں کرنا چاہئیے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپ انہیں «يرحمك الله» کہیں گے مگر آپ انہیں یہی کہتے: «يهديكم الله ويصلح بالكم» [صحيح ابي داود 4213 و صحيح الترمذي]
➒ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ اپنے بھائی کو تین دفعہ «يرحمك الله» کہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔ [صحيح ابي داود۔ 4210]
➓ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھینک آتی تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لیتے اور چھینکتے وقت اپنی آواز کو پست رکھتے۔ [صحيح ابوداود 4207 و صحيح الترمذي]
⓫ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد لله» کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے «يرحمك الله» کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا“ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]
صحیح مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 44
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5033
´چھینکنے والے کا جواب کیسے دے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو چاہیئے کہ وہ کہے: «الحمد لله على كل حال» (ہر حالت میں تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) اور چاہیئے کہ اس کا بھائی یا اس کا ساتھی کہے: «يرحمك الله» (اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اب وہ پھر کہے: «يهديكم الله ويصلح بالكم» (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہیں ٹھیک رکھے، اور تمہاری حالت درست فرما دے)۔“ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5033]
فوائد ومسائل:
چھینک آنے پر مندرجہ بالا کیفیت میں اللہ کی حمد کرنا۔
اور ایک دوسرے کو دعایئں دینا انتہائی تاکیدی سنت ہے۔
اور جو شخص خود الحمد للہ نہ کہے۔
تو وہ اپنے بھائی سے جواباً دعا کی توقع نہ رکھے۔
جیسے اگلی حدیث 5039 میں آرہا ہے۔
ایسے ہی زکام وغیرہ کے مریض کو بار بار جواب دینا بھی ضروری نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5033
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6224
6224. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی چھینک مارے تو وہ الحمد اللہ کہے۔ اس کا بھائی یا ساتھ یرحمك اللہ کہے۔ جب اس کا ساتھی یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا جواب میں یھدیکم اللہ ویصلح بالکم کہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6224]
حدیث حاشیہ:
اللہ تمہیں سیدھے راستہ پر رکھے اور تمہارے حالات درست کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6224
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6224
6224. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی چھینک مارے تو وہ الحمد اللہ کہے۔ اس کا بھائی یا ساتھ یرحمك اللہ کہے۔ جب اس کا ساتھی یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والا جواب میں یھدیکم اللہ ویصلح بالکم کہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6224]
حدیث حاشیہ:
(1)
چھینک مارنے والے کے لیے پہلا ادب یہ ہے کہ وہ اپنی آواز کو پست رکھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تو آپ اپنے منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیتے اور اپنی آواز پست رکھتے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5029) (2)
بعض لوگ چھینک آنے پر جان بوجھ کر زور لگاتے ہیں اور کہرام برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو خلاف ادب اور غیر مسنون عمل ہے۔
دوسرا ادب یہ ہے کہ وہ الحمدللہ کہے۔
تیسرا ادب یہ ہے کہ وہ جواب دینے والے کو (يهديكم الله و يصلح بالكم)
کے الفاظ سے دعا دے، یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات درست کر دے لیکن جو شخص خود الحمدللہ نہ کہے تو وہ اپنے بھائی سے دعا کی توقع نہ رکھے۔
(3)
ایک حدیث میں (يغفرالله لنا ولكم)
سے جواب دینے کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5031)
لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6224