بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
1. باب الأدب
ادب کا بیان
حدیث نمبر: 1237
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ - صلى الله عليه وسلم -{انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ, وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ, فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اَللَّهِ عَلَيْكُمْ} مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ [1].
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ اپنے سے (غریب) کو دیکھو اور اپنے سے (امیر) کی طرف نہ دیکھو اور یہ اس کیلئے زیادہ مناسب ہے (اس لیے) کہ تم اللہ کی کسی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔“ (بخاری و مسلم)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الرقاق، باب لينظر إلي من هو أسفل منه...، حديث:6490، ومسلم، الزاهد والرقائق، باب الدنيا سجن للمؤمن وجنة للكافر، حديث:2963، واللفظ له.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1237 کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1237
تخریج:
[بخاري 6490]،
[مسلم، الزهد 7428]،
[بلوغ المرام: 1237]
مفردات:
«أسفل» لام پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں رفع اس لئے کہ یہ ”ھو“ کی خبر ہے اور نصب اس لئے کہ یہ ”ھو“ کی محذوف خبر کاسن کے لئے مفعول فیہ (ظرف) ہے۔
«أن لا تزدروا» یہ باب افتعال سے ہے اس کا مادہ ”زری“ ہے۔ «زريت عليه» اور «ازريت به» میں نے اس کی تحقیر کی یہ اصل میں «تزتريوا» تھا افتعال کی تاء اگر زاء کے بعد آ جائے تو اسے دال سے بدل دیتے ہیں۔
فوائد:
➊ اگر کوئی شخص انہی لوگوں کی طرف دیکھے جنہیں دنیا کی نعمتیں اس سے زیادہ دی گئی ہیں تو خطرہ ہے کہ اس کے دل میں خالق کا شکوہ پیدا ہو جائے یا اس شخص پر حسد پیدا ہو جائے۔ اور یہ دونوں چیزیں اس کی بربادی کا باعث ہیں۔ حدیث میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔ جب وہ ان لوگوں کو دیکھے گا جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے بھی نیچے ہیں اس کا دل خالق کے شکر، اپنی حالت پر صبر و قناعت اور دوسرے بھائیوں پر رحم سے بھر جائے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہیں جانے گا۔
➋ اپنے سے نیچے سے مراد وہ ہے جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے کمتر ہے۔ اگر تندرست ہے تو بیماری میں مبتلا لوگوں کی طرف دیکھے اس سے اسے اللہ کی عطا کردہ صحت پر شکر کی نعمت حاصل ہو گی۔ اگر بیمار ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کے اعضاء ہی نہیں ہیں وہ اندھے بہرے، لنگڑے یا کوڑھی ہیں۔ اس سے اسے اپنی عافیت کی قدر معلوم ہو گی۔ اگر تنگدست ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی بڑھ کر فقیر ہیں جنہیں محتاجی نے سراسر ذلیل کر دیا ہے۔ یا وہ قرض کے خوفناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ غرض دنیا کی کسی آزمائش میں مبتلا ہو اسے اپنے سے بڑھ کر مصیبت میں مبتلا لوگ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے ان کے حال پر غور کرے گا تو اسے شکر، صبر اور قناعت کی نعمت حاصل ہو گی۔
➌ دین کے معاملات میں ہمیشہ ان لوگوں کو دیکھے جو اس سے اوپر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ» [83-المطففين:26]
”اور اسی (جنت) میں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں وہ لوگ جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کسی چیز میں رغبت کرتے ہیں۔“
اور فرمایا:
«فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ» [5-المائدة:48]
”پسں نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔“
جب نعمتوں میں اپنے سے کمتر لوگوں کو اور نیکیوں میں اپنے سے بالاتر لوگوں کو دیکھے گا۔ تو پہلی نظر سے اللہ کی نعمتوں پر شکر کرے گا اور اللہ پر خوش ہو جائے گا۔ اور دوسری نظر سے اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہو گا، پروردگار کے سامنے حیا کی وجہ سے انتہائی عجز اختیار کرے گا اور ندامت کے احساس سے گناہوں سے تائب ہو کر اپنے سے بالاتر لوگوں کی صف میں شامل ہونے کی کو شش کرے گا۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 29
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 35
´مالدار کی بجائے غریب کو دیکھو`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو اس سے مال اور شکل و صورت میں عمدہ ہے تو وہ اس شخص کی طرف (بھی) نظر کرے، جو اس سے (ان خوبیوں سے) کم درجہ کا حامل ہے جس پر مفردات اسے اس شخص پر فضیلت دی گئی ہے۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 35]
مفردات الحديث: ...... «فِى الْمَالِ وَالْخَلْقِ:» مذکورہ حدیث میں لفظ "خَلْق" استعمال ہوا ہے، جسے خاء کے فتح (زبر) اور لام کے ساکن (جزم) سے ادا کرنا ہے، نہ کہ "خُلْق" یعنی خاء کے ضمہ (پیش) کے ساتھ پڑھنا ہے کیونکہ اس سے معنی میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا، امام بغوی رحمة الله علیہ نے "شرح السنة" میں سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے حدیث نقل کی ہے۔ جس میں لفظ "خَلْق" کی بجائے لفظ "جسم" مستعمل ہے۔ تو اس سے واضح ہے کہ یہاں خُلق کے بجائے خَلق ہی استعمال کیا جائے گا۔ اور (غالباً) اسی وجہ سے بعض علماء نے "فِى الْمَالِ وَالْخَلْقِ" کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے (چہرہ) حسن یا باوقار ہونے کی فضیلت مراد ہے۔
شرح الحديث:
یاد رہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان مبارک میں جس کام سے روکا گیا ہے وہ اپنے سے بلند درجہ حامل شخص کی طرف دیکھنا ہے۔ اس روکنے اور منع کرنے کا سبب اور حکمت حسد کو ختم کرنا ہے یا پھر تواضع اور انکساری پیدا کرنا ہے۔ چناچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ، فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ. "» [صحيح مسلم، كتاب الزهد، رقم: 7430]
"تم اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے کم حیثیت ہے، اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے برتر ہے۔ بلاشبہ یہ زیادہ مناسب ہے کہ اس سے تم اپنے اوپر الله تعالیٰ کے انعامات کی ناقدری نہیں کرو گے۔ "
اس مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہو گیا کہ جو شخص اپنے سے بلند پایہ شخص کی طرف توجہ مرکوز کرتا ہے، اس کی آسائش و آلائش اس کے دماغ پر ڈیرے ڈال دیتی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذات باری پر شاکی بن جاتا ہے، لوگوں سے حسد کرنا شروع کر دیتا ہے اور ذات باری کے ان گنت انعامات کو حقیر جانتے ہوئے ان کی ناشکری کرتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جو لوگ جاگیر دار، سرمایہ دار اور دولت مند لوگوں سے ہٹ کر اپنے جیسے یا اپنے سے کم درجہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں، تو اس سے مودت، محبت، اخوت اور بھائی چارہ پیدا ہونے کے ساتھ شکران نعمت نصیب ہوتا ہے، چناچہ عون بن عبدالله رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: کہ "میں نے اہل دولت کی محفل کو اپنائے رکھا، (مگر مجھے سوائے ذہنی کوفت کے اور کچھ بھی دستیاب نہ ہو سکا) کیونکہ میں نے دیکھا کہ ان کی سواریاں میری سواری سے عمدہ اور ان کے لباس میرے لباس سے شاہانہ ہیں۔ اس کے بعد میں نے فقيروں کی مجلس میں قدم رکھا، تو وہاں جاکر مجھے (قلبی) استراحت میسر ہوئی۔ " [شرح السنة: 295/14]
حاصلِ معنی یہ ہے کہ جو کوئی اپنے سے بلند درجہ شخص کو دیکھ لیتا ہے، تو اس کے دل میں مال و حشمت اور لباس و جمال کے ساتھ ساتھ حرص بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کا نفس ان تمام چیزوں کا خواہش مند ہوتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ نہیں پتا ہوتا کہ یہ سارا سامان عیش میرے لیے آخرت میں باعث وبال بن جائے گا۔ اس کے برعکس جو کوئی اپنے سے کم درجہ کی طرف التفات کرتا ہے تو اس کے دل میں شکران نعمت کے ساتھ ساتھ تواضع و انکساری اور فعل خیر کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
عمرو بن شعيب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے الله تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے الله تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو الله نے اس پر کیا ہے تو الله تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پر نظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا، تو الله تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا“ [سنن ترمذي، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم: 2512 - مشكوٰة المصابيح، رقم: 5256 - فتح الباري: 323/11 - ارشاد الساري: 280/9]
اس حدیث پاک میں دو باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تو زہد اور دوسرا مسابقت فی الدین کی ترغیب دلائی گئی ہے لہذا دنیاوی امور میں کسی کی اقتداء کرنا قطعی طور پر نامناسب اور غیر معقول ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی کے مال و دولت اور لباس و جمال کو دیکھ کر اس کے مشابہ بننے کی کوشش مت کرے، ہاں! اگر وہ کسی سے فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اسے مناسب ہے کہ وہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے معاملات دین میں فوقیت حاصل کرے۔ جیسا کہ الله تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: «فَاسْتَبِقُوْا الْخَيْرَاتِ» [البقرة: 148]
"نیکی و خیرات کے معاملہ میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرو۔ "
اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ، فَقَالَ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُهْلِكُهُ فِي الْحَقِّ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ .» [صحيح بخاري، كتاب فضائل القرآن، رقم: 5026 - مسند احمد: 479/2]
"رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے ایک اس پر جسے الله تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے کہ اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے الله نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا۔ "
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 35
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4142
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔“ ابومعاویہ نے «فوقكم» کی جگہ «عليكم» کا لفظ استعمال کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4142]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیچے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے کم ہے اور اوپر والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے بڑھ کر ہے۔
(2)
اپنے سے زیادہ نعمت والے کو دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے یہ نعمت کم حاصل ہےاس کمی کو شیطان اس انداز سے پیش کرتا ہے گویا یہ نعمت حاصل ہی نہیں۔
اس طرح محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے شکر کے بجائے اللہ سے شکوہ کرنے کو جی چاہتا ہے جو ناشکری کی ایک بڑی صورت ہے۔
(3)
اپنے سے کم تر پر نظر ڈالنے سے حاصل شدہ نعمت کی قدر معلوم ہوتی ہے جس سے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
(4)
ہر نعمت کے بارے میں یہ کیفیت ہے کہ ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو وہی نعمت اسے کسی دوسرے سے زیادہ بھی ملی ہے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو کوئی دوسری نعمت اسے زیادہ بھی ملی ہے جیسے ایک شخص کسی سے کم دولت رکھتا ہےاور کسی سے زیادہ دولت مند بھی ہے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ اس سے دولت میں کم ہے تو صحت وقوت میں اس سے بڑھ کر ہےاگر حسن صورت میں کم ہے تو علم وفضل یا حسن سیر ت میں میں اس سے زیادہ بھی ہے لہٰذا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اللہ سے شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4142
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1097
1097- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور جسامت میں اس سے برتر حیثیت رکھتا ہے، تو اسے اس شخص کا بھی جائزہ لینا چاہتے جو اس حوالے سے اس سے کمتر حیثیت رکھتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1097]
فائدہ:
اس حدیث میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ انسان کو ہمیشہ مال و دولت کے اعتبار سے غریب انسان کو دیکھنا چاہیے، نہ کہ اپنے سے امیر کو لیکن دین کے اعتبار سے اپنے سے افضل کو دیکھنا چاہیے، نہ کہ اپنے سے کم تر کو۔ اس طریقے سے انسان کے اندر نیکی اور تقوی میں برتری ثابت ہوتی ہے اور مال و دولت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1095
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7430
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7430]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ان لا تزدروا:
حقیر اور کم تر خیال نہ کرو،
کیونکہ ازدراء کا معنی ہوتا ہے،
کسی کو حقیرو ناقص قرار دینا،
عیب لگانا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7430
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6490
6490. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال ودولت اور شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کو بھی دیکھنا چاہیئے جو اس سے کم درجے کا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6490]
حدیث حاشیہ:
انسان کی یہ ایک فطری کمزوری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو مال و دولت یا شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اس میں طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح کا کیوں نہیں بنایا۔
اس حدیث میں اس روحانی بیماری کا علاج تجویز کیا گیا ہے کہ اپنے سے غریب و مفلس اور کم زور بندوں کو دیکھ لے۔
ایسا کرنے سے اس کی بیماری کا علاج ہو جائے گا۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے:
”جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاں صابر و شاکر لکھے گا:
جس شخص کی عادت ہو کہ وہ دین کے معاملے میں تو ان بندوں پر نظر رکھے جو دین میں اس سے بڑھ کر ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے خستہ حال کو دیکھے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے برتری دی ہے تو اللہ کے ہاں صابر و شاکر لکھا جائے گا۔
اور جو آدمی دینی معاملات میں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے بالاتر اور اونچے کو دیکھے اور جو دنیاوی نعمتیں اسے نہیں ملیں ان پر افسوس اور رنج کا اظہار کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صابر و شاکر نہیں لکھا جائے گا۔
“ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2512)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6490