عن جابر رضي الله عنه أن رجلا من الأنصار أعتق غلاما له عن دبر لم يكن له مال غيره فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «من يشتريه مني؟» فاشتراه نعيم بن عبد الله بثمانمائة درهم. متفق عليه وفي لفظ للبخاري:" فاحتاج". وفي رواية النسائي: وكان عليه دين فباعه بثمانمائة درهم فأعطاه وقال: «اقض دينك» .
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3955
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3955]
فوائد ومسائل:
غلام کے بارے میں یہ وصیت کرنا کہ یہ میری وفات کے بعد آزاد ہوگا بالکل مباح اور جائز ہے۔
مگر وارثوں کے حالات کے پیش نظر اگر وہ بالکل ہی مفلوک الحال ہوں توایسی وصیت کو فسخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قاضی اور حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کو فسخ کردیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3955
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3957
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک ابومذکور نامی انصاری نے اپنے یعقوب نامی ایک غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: ”اسے کون خریدتا ہے؟“ چنانچہ نعیم بن عبداللہ بن نحام نے آٹھ سو درہم میں اسے خرید لیا تو آپ نے اسے انصاری کو دے دیا اور فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی محتاج ہو تو اسے اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیئے، پھر جو اپنے سے بچ رہے تو اسے اپنے بال بچوں پر صرف کرے پھر اگر ان سے بچ رہے تو اپنے قرابت داروں پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3957]
فوائد ومسائل:
1) اگرکوئی غلام مدبرکیا جاچکا ہو اور احوال وظروف اس کی اجازت نہ دیتے ہوں تو اس کی آزادی کو منسوخ کیا جاسکتا ہے اور اس کو فروخت کرنا جائز ہے۔
2) خود ضرورت مند ہوتے ہوئے صدقہ کرنا ا گرچہ باعث فضیلت عمل ہے، مگر دیکھا جائے کہ ایسے حالات کا مقابلہ کرنا ایسے لوگوں کے لئے ممکن بھی ہے یا نہیں؟
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3957
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2513
´مدبر غلام کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)
(2)
جب تک آقا زندہ ہے مدبر غلام ہی رہتا ہے اور اس پر غلاموں والے سب احکام لاگو ہوتے ہیں۔
(2)
مجبوری کی حالت مدبر غلام کی اس مشروط آزادی کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہےجیسا کہ اس حدیث میں ہےکہ آزاد کرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔
صیحح بخاری میں ہے وہ محتاج تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ، حدیث: 2141)
اس کے علاوہ مقروض بھی تھا۔ (فتح الباري، البیوع، باب بیع المدبر بحواله اسما عیلیي)
(4)
آزاد کرنے والے صحابی کا نام ابو مذکور بیان کیا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث: 3955)
(5)
خریدنے والے صحابی کا نام حضرت نعیم بن عبداللہ تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ حدیث: 2141)
انھی کو ابن نحام بھی کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے جنت میں ان کے کھنکھارنے کی آواز سنی تھی۔ (حاشہ صیحح المسلم از محمد فواد عبدالباقی الایمان باب جوازبیع المدبر)
(6)
اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ (سنن أبي داود، العتق باب فی بیع المدبرۃ، حدیث: 997)
(7)
غلام کی قیمت آٹھ سو درہم ادا كى گئی۔ (صیحح البخاري، الأحکام، باب بیع الإمام علی الناس أموالھم وضیاعھم، حدیث: 7186)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2513
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1219
´مدبر غلام کے بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس شخص کا نام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کا نام یعقوب۔
2؎:
مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔
3؎:
بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1219
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1256
1256- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کردیا، اس کے پاس اس غلام کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو فروخت کروا دیا، سیدنا نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ نے اسے خرید لیا۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ہے، وہ ایک قبطی غلام تھا، جو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت کے پہلے سال فوت ہوا تھا۔ ابوزبیر نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں۔ اس کا نام ”یعقوب قبطی“ تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1256]
فائدہ:
غلام مد بر اس کو کہتے ہیں جس کو کہا جائے کہ جب مالک فوت ہو جائے تو تو آزاد ہو جائے گا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے اہل و عیال کا خیال رکھ کر کام کرنا چاہیے، اس حدیث میں ایک صحابی نے اپنے غلام کو وفات کے بعد آزاد قرار دے دیا تھا، جبکہ اس بندے کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت ہونے والے کی بات کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ غلام کو فروخت کیا، اور اس کی مالیت اہل و عیال کو دے دی، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باطل شرط کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1254
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4338
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے غلام کو اپنی موت کے بعد آزاد قرار دیا، حالانکہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی مال نہ تھا، یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا۔“ تو اسے حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رقم اس کے مالک کے حوالہ کر دی، حضرت عمرو بیان... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4338]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مدبر:
اس غلام کو کہتے ہیں،
جسے اس کا آقا یہ کہہ دے،
تم میری موت کے بعد آزاد ہو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے،
لیکن اس کی صورت کیا ہے،
اس میں اختلاف ہے۔
(ا)
امام شافعی کے نزدیک،
مالک کی زندگی میں اسے ہر صورت میں بیچا جا سکتا ہے،
مالک محتاج و ضرورت مند ہو یا نہ،
امام احمد کا صحیح قول یہی ہے،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا،
طاؤس،
عمر بن عبدالعزیز اور مجاہد وغیرہم اس کے قائل تھے۔
(ب)
اگر مالک مقروض ہو اور اس کے پاس اس مدبر غلام کے سوا کوئی مال نہ ہو،
تو پھر اس کا بیچنا جائز ہے،
امام اسحاق،
ابو خیثمہ کا نظریہ یہی ہے،
اور امام احمد کا ایک قول بھی یہ ہے۔
(ج)
اگر تدبیر مطلق ہے،
تو امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک جائز نہیں ہے،
اگر تدبیر مقید ہے یعنی اگر میں اس ماہ مر گیا،
یا اس بیماری میں مر گیا،
لیکن نہ مرا تو پھر اس کو بیچنا جائز ہے،
لیکن حدیث میں تدبیر کا مقید ہونا ثابت نہیں ہے،
اس لیے صحیح یہی ہے کہ ضرورت و احتیاج کی صورت میں مدبر غلام کو بیچنا جائز ہے،
اور احناف کے نزدیک غلام کو آگے اجرت اور مزدوری پر دیا تھا،
اس کی ملکیت کو نہیں بیچا،
بعض جلیل القدر صحابہ سے بھی مدبر کے بارے میں احناف والا موقف منقول ہے،
اس لیے بیع کی ضرورت پر ہی محمول کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4338
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4339
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ایک انصاری نے اپنا غلام مدبر ٹھہرایا، اس کے سوا اس کے پاس کوئی مال نہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فروخت کر دیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، اسے ابن النحام نے خرید لیا، وہ قبطی غلام تھا، اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے پہلے سال فوت ہو گیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4339]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بقول حافظ نخام کا لقب،
نعیم اور ان کے باپ عبداللہ،
دونوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4339
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2403
2403. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے مرنےکے بعد اپنےغلام آزاد کرنے کی وصیت کردی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ تو اسے حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓ نے خرید لیا۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت وصول کر کے مالک کو واپس کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2403]
حدیث حاشیہ:
اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
شخص مذکور مفلس تھا، صرف وہی غلام اس کا سرمایہ تھا۔
اور ا سکے لیے اس نے اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اعلان کر دیا تھا جس سے دیگر مستحقین کی حق تلفی ہوتی تھی۔
لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اسے اس کی حیات ہی میں فروخت کرا دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2403
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2534
2534. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد قرار دیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے بلایا اور فروخت کردیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ وہ غلام پہلے سال ہی فوت ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2534]
حدیث حاشیہ:
اس کا نام یعقوب تھا۔
آنحضرت ﷺ نے آٹھ سو درہم پر یا سات سو یا نو سو پر نعیم کے ہاتھ اس کو بیچ ڈالا۔
امام شافعی اور امام احمد کا مشہور مذہب یہی ہے کہ مدبر کی بیع جائز ہے۔
حنفیہ کے نزدیک مطلقاً منع ہے اور مالکیہ کا مذہب ہے کہ اگر مولیٰ مدیون ہو اور دوسری کوئی ایسی جائیداد نہ ہو جس سے قرض ادا ہوسکے تو مدبر بیچا جائے گا ورنہ نہیں۔
حنفیہ نے ممانعت بیع پر جن حدیثوں سے دلیل لی ہے وہ ضعیف ہیں اور صحیح حدیث سے مدبر کی بیع کا جواز نکلتا ہے۔
مولیٰ کی حیات میں۔
(وحیدی)
حدیث ہٰذا سے مالکیہ کے مسلک کی ترجیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ حدیث میں جس غلام کا ذکر ہے اس کی صورت تقریباً ایسی ہی تھی۔
بہر حال مدبر کو اس کا آقا اپنی حیات میں اگر چاہے تو بیچ بھی سکتا ہے کیوں کہ اس کی آزادی موت کے ساتھ مشروط ہے۔
موت سے قبل اس پر جملہ احکام بیع و شراءلاگو رہیں گے۔
واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2534
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2141
2141. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2141]
حدیث حاشیہ:
نعیم بن عبداللہ ؓ نے آٹھ سو درہم کا لیا، جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اس کو کون خریدتا ہے، تو یہ نیلام ہی ہوا۔
اور اسماعیلی کا اعتراض دفع ہو گیا کہ حدیث سے نیلام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے مول بڑھانا شروع کیا، اور مدبر کی بیع کا جواز نکلا، امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی قول ہے، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک مدبر کی بیع درست نہیں ہے۔
تفصیل آرہی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
لما ان تقدم في الباب قبله النهي عن السوم أراد أن یبین موضع التحریمة منه و قد أوضحته في الباب الذي قبله و ورد في البیع فیمن یزید حدیث أنس أنه صلی اللہ علیه وسلم باع حلسا و قدحا و قال من یشتري هذا الحلس و القدح فقال رجل أخذتهما بدرهم فقال من یزید علی درهم فأعطاہ رجل درهمین فباعهما منه أخرجه أحمد و أصحاب السنن مطولا و مختصراً و اللفظ للترمذي و قال حسن و کان المصنف أشار بالترجمة إلی تضعیف ما أخرجه البزار من حدیث سلیمان بن وهب سمعت النبي صلی اللہ علیه وسلم ینهی عن بیع المزایدة فإن في إسنادہ ابن لهیعة وهو ضعیف۔
(فتح)
چونکہ پچھلے باب میں بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے نہی گزر چکی ہے لہٰذا مصنف نے چاہا کہ حرمت کی وضاحت کی جائے اور میں اس سے پہلے باب میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے نیلام کا بیان شروع فرمایا اوراس کا جواز ثابت کیا۔
اور اس بیع کے بارے میں انس ؓ سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک پرانا ٹاٹ اور ایک پیالہ نیلام فرمایا۔
اور ایک آدمی نے ان کی بولی ایک درہم لگائی۔
آپ ﷺ کے دوبارہ اعلان پر دوسرے آدمی نے دو درہموں کو بولی لگادی۔
اور آپ ﷺ نے ہر دو چیزیں اس کو دے دیں۔
حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ مسند بزار میں سفیان بن وہب کی روایت سے جو حدیث موجود ہے جس میں نیلام سے ممانعت وارد ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔
اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہے۔
حضرت عطاءبن ابی رباح مشہور ترین تابعی ہیں۔
کنیت ابومحمد ہے جلیل القدر فقیہ ہیں۔
آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔
امام اوزاعی ؒ کا قول ہے کہ ان کی وفات کے وقت ہر شخص کی زبان پر ان کا ذکر خیر تھا۔
اور سب لوگ ان سے خوش تھے۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے علم کے خزانوں کا مالک حضرت عطاءبن ابی رباحؒ کو بنایا جو حبشی تھے۔
علم اللہ کی دین ہے جسے چاہے وہ دے دے۔
سلمہ بن کہیل نے کہا، عطاء، طاؤس، مجاہد ؒ وہ بزرگ ہیں جن کے علم کی غرض و غایت صرف خدا کی ذات تھی۔
88 سال کی عمر میں 115ھ میں وفات پائی۔
رحمه اللہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2141
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6716
6716. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو مدبر بنایا جبکہ اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا۔ نبی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے آٹھ سو درہم کے عوض اسے خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں۔ وہ ایک قبطی غلام تھا جو پہلے ہی سال مر گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6716]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6716
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6947
6947. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6947]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب غلام کا مدبر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو کر دیا حالانکہ اس کے مالک نے اپنی خوشی سے اس کو مدبر کیا تھا اور وجہ یہ ہوئی کہ وارثوں کے لیے اور کوئی مال اس شخص کے پاس نہ تھا تو گویا وارثوں کی ناراضی کی وجہ سے جن کی ملک اس غلام سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی تدبیر ناجائز ٹھہری پس وہ تدبیر یا بیع کیوں کر جائز ہو سکتی ہے جس میں خود مالک ناراض ہو اور وہ جبر سے کی جائے۔
مہلب نے کہا اس پر علماء کا اجماع ہے کہ مکرہ کا بیع اور یہ صحیح نہیں ہے لیکن حنفیہ نے یہ کہا ہے کہ اگر مکرہ سے خریدے ہوئے غلام یا لونڈی کوئی آزاد کر دے یا مدبر کر دے تو خریدار (یہ تصرف جائز ہوگا۔
امام بخاری کے اعراض کا۔
)
کا حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے کلام میں مناقضہ ہے اگر مکرہ کی بیع صحیح اور مفید ملک ہے تو سب تصرفات خریدار کے درست ہونے چاہئیں اگر صحیح اور مفید ملک نہیں ہے تب نہ نذر صحیح ہونی چاہئے نہ مدبر کرنا اور نذر اور تدبیر کی صحت کا قائل ہونا اور پھر مکرہ کی بیع صحیح نہ سمجھنا دونوں میں مناقفہ ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6947
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2141
2141. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2141]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نیلامی کی بیع سے منع کیا ہے۔
(کتاب الإسناد عن الزوائد البرار: 483/1)
بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ پیش کردہ حدیث میں نیلامی کا ذکر نہیں ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ اسے کون خریدتا ہے؟یہی نیلامی کے ثبوت کےلیے کافی ہے۔
بہرحال نیلامی اگر قیمت بڑھانے کے لیے جائے تو منع ہے۔
اگر خریدنے کا ارادہ ہوتو نیلامی جائز ہے۔
مذکورہ حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2403
2403. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے مرنےکے بعد اپنےغلام آزاد کرنے کی وصیت کردی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ تو اسے حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓ نے خرید لیا۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت وصول کر کے مالک کو واپس کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2403]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس غلام کا نام یعقوب، مالک کا نام ابو مذکور اور اس کی قیمت آٹھ سو درہم تھی۔
ان تمام باتوں کی صراحت سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے۔
(سنن النسائي، البیوع، حدیث: 4657) (2)
ابن بسطامی نے کہا ہے کہ اس حدیث سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جس نے غلام مدبر کیا تھا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا اور روایت میں قرض کی صراحت بھی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے فروخت کیا تھا کہ ایسا نہ ہو وہ اسے آزاد کر کے خود تنگ دست ہو جائے۔
ابن منیر نے جواب دیا ہے کہ شاید اس کا مالک مقروض ہو جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ مقروض کا مال خود بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور قرض خواہ کو بھی تقسیم کے لیے دیا جا سکتا ہے۔
جب غلام کو ذاتی ضروریات کے لیے فروخت کیا جا سکتا ہے تو قرض خواہوں کے لیے اسے فروخت کرنا بالاولیٰ جائز ہوا۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک عبارت اس طرح ہے کہ مفلس کا مال بیچ کر قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جائے اور تنگ دست کا مال فروخت کر کے خود اسے دے دیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ پر خرچ کرے، نیز بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے فرمایا:
”تمہارے لیے یہی کچھ ہے، اسے اپنے قرض کے حساب سے تقسیم کر لو۔
“ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 3981(1556)
واضح رہے کہ جب تک غلام آزاد نہ ہو اس کی آزادی کا وعدہ کرنے والا اپنی رائے بدل سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اب میرے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2415
2415. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کیا جبکہ اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے اقدام آزادی کو مسترد کردیا۔ پھر(بعد میں) اس غلام کو حضرت نعیم بن نحام نے خریدلیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2415]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں، ان میں جو مسئلہ زیر بحث ہے اس کے متعلق تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ جس شخص سے مال کا ضائع ہونا ظاہر ہو جائے اسے تصرفات سے روک دیا جائے اور اس پر پابندی لگا دی جائے بشرطیکہ مال کثیر ہو یا اس کی کل جائیداد کا احاطہ کیے ہوئے ہو جیسا کہ غلام آزاد کرنے والے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
اور جب کسی معمولی چیز میں تصرف کا معاملہ ہو اور اس سے مال کا ضائع ہونا ظاہر نہ ہوا ہو تو اسے تصرفات سے نہ روکا جائے جیسا کہ خریدوفروخت میں دھوکا کھانے والے کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 90/5)
بہرحال کسی کمزور یا ضعیف العقل کا مال فروخت کر کے اس کی قیمت اس کے حوالے کر دینا اور اسے مشورہ دینا کہ اسے بہتر طور پر خرچ کرو یہ سب نیکی کے کام ہیں۔
بزرگوں کو چھوٹوں کے معاملات میں ایسا ہی کرنا چاہیے تاکہ وہ نیکی کے کاموں میں سوچ سمجھ کر خرچ کریں اور فضول خرچی میں اپنا مال ضائع نہ کریں۔
(2)
واضح رہے کہ مذکورہ دونوں احادیث کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے، یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن باتوں سے لڑائی جھگڑا اور اختلاف پیدا ہو ان سے بچنا چاہیے کیونکہ اختلاف وغیرہ سے بغض اور کینہ پیدا ہوتا ہے جو انسان کی تباہی کا باعث ہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2415
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2534
2534. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد قرار دیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے بلایا اور فروخت کردیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ وہ غلام پہلے سال ہی فوت ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2534]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدبر غلام وہ ہے کہ جسے اس کا مالک یہ کہہ دے:
”میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔
“ یہ مدبر مطلق ہے۔
اگر یوں کہے:
اگر میں اس بیماری میں مر گیا تو وہ آزاد ہے، یہ مدبر مقید ہے۔
(2)
مدبر غلام کی خریدوفروخت کے متعلق علمائے حدیث میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ کا مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ رجحان معلوم ہوتا ہے کہ مطلق طور پر مدبر کی بیع جائز ہے۔
ہمارے نزدیک مدبر کی فروخت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے:
پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا آقا مقروض ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی جائیداد نہ ہو جس سے قرض کی ادائیگی ممکن ہو۔
ایسے حالات میں آقا اپنی زندگی میں جب چاہے اپنے مدبر غلام کو فروخت کر سکتا ہے۔
حدیث میں جس غلام کو فروخت کرنے کا ذکر ہے اس کا آقا اسی قسم کے حالات سے دوچار تھا، چنانچہ اس غلام کی آزادی آقا کی موت کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے موت سے پہلے اسے جب ضرورت پڑے تو وہ فروخت کر سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2534
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6716
6716. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو مدبر بنایا جبکہ اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا۔ نبی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے آٹھ سو درہم کے عوض اسے خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں۔ وہ ایک قبطی غلام تھا جو پہلے ہی سال مر گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6716]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ ہر قسم کے کفارے میں مدبر، ام ولد اور مکاتب وغیرہ کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے جمہور کے موقف کی تائید کی ہے کہ جب مدبر غلام کو فروخت کیا جا سکتا ہے، تو اسے آزاد کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ ام ولد اور مکاتب کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
(2)
ولد الزنا اگر مومن ہے تو وہ کافر غلام کے مقابلے میں افضل ہے۔
قرآنی آیت مطلق ہے تو اسے کفارۂ قسم میں آزاد کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6716
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6947
6947. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6947]
حدیث حاشیہ:
1۔
تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہہ دے "میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے" اس طرح کے غلام کو مدبر کہتے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی۔
چونکہ اس کے پاس ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی اور غلام کو مدبرکرنا اس کی بے وقوفی تھی، نیز اس آدمی کے ورثاء بھی اس پر ناراض ہو سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے وقوفی اور ورثاء کی ناراضی کی وجہ سے غلام کے مدبر کرنے کو ناجائز ٹھہرایا اور اسے فروخت کر دیا۔
اس بنا پر اس شخص کی خریدوفروخت اور ہبہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس کا مالک اسے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا نہ چاہتا ہو بلکہ اس پر جبر کر کے فروخت کیا جائے یا کسی دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا جبکہ اس کا کوئی اور مال نہ تھا گویا اس نے کم عقلی کی وجہ سے اپنے غلام کو مدبر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مدبر کرنے کو مسترد کر دیا اگرچہ وہ اس کا مالک تھا، تو جس شخص نے فاسد بیع سے غلام خریدا اور اس کی ملک بھی صحیح نہ تھی جب وہ اس ذخرید کردہ غلام کو مدبر کر دے یا آزاد کر دے تو اس کی تدبیر اور آزاد کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اس کی ملک ہی صحیح نہیں ہے۔
(فتح الباري: 400/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6947
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7186
7186. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک آدمی اپنا نمائدہ بنادیا ہے اور اس کے پاس غلام کے علاوہ کوئی جائیداد بھی نہیِں۔ اس بنا پر آپ ﷺ نے اس غلام کو آٹھ سو درہم میں فروخت کرکے اس کی قیمت مالک کو بھجوا دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7186]
حدیث حاشیہ:
حاکم وقت کو یہ اختیار ہے کہ بوقت ضرورت کسی کا مال فروخت کر دے تاکہ اس سے قرض وغیرہ ادا کرے یا دیگر حقوق کا تحفظ مقصود ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کامدبر غلام فروخت کر دیا تھا کیونکہ اس کے پاس اس غلام کے علاوہ اور کوئی جائیداد نہ تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقدام (مدبر کرنے)
کو ختم کر دیا لیکن ایک دوسرا شخص جسے عام طور پر خریدوفروخت میں دھوکا دیا جاتا تھا اس کا فعل ختم نہ کیا بلکہ اسے فرمایا:
جب خریدوفروخت کر ے تو (لاَخِلاَبَةَ)
کہہ دیا کرے کیونکہ اس کے خریدوفروخت کرنے سے اس کا سارا مال ختم نہیں ہوا تھا۔
(فتح الباري: 222/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7186