Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4211
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْنَا خَيْبَرَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا، فَاصْطَفَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ، فَبَنَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ، ثُمَّ قَالَ لِي:" آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ"، فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَتَهُ عَلَى صَفِيَّةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ، ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ وَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ.
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے احمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یعقوب بن عبدالرحمٰن زہری نے خبر دی ‘ انہیں مطلب کے مولیٰ عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر آئے پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیبر کی فتح عنایت فرمائی تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کی خوبصورتی کا کسی نے ذکر کیا ‘ ان کے شوہر قتل ہو گئے تھے اور ان کی شادی ابھی نئی ہوئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے لے لیا اور انہیں ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے۔ آخر جب ہم مقام سد الصہباء میں پہنچے تو ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا حیض سے پاک ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ خلوت فرمائی پھر آپ نے حیس بنایا۔ (جو کھجور کے ساتھ گھی اور پنیر وغیرہ ملا کر بنایا جاتا ہے) اور اسے چھوٹے سے ایک دستر خوان پر رکھ کر مجھ کو حکم فرمایا کہ جو لوگ تمہارے قریب ہیں انہیں بلا لو۔ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہی ولیمہ تھا۔ پھر ہم مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے عبا اونٹ کی کوہان میں باندھ دی تاکہ پیچھے سے وہ اسے پکڑے رہیں اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا گھٹنا اس پر رکھا اور صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے پر رکھ کر سوار ہوئیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4211 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4211  
حدیث حاشیہ:

حضرت صفیہ ؓ کا نام زینب تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے منتخب فرمایا تو اس کا نام صفیہ پڑگیا اور یہی اصل نام پر غالب آگیا۔
انھیں استبرائے رحم تک حضرت ام سلیم ؓ کے پاس ٹھہرایا گیا، جب حیض سے پاک ہوگئیں تو انھیں سنوار کررسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا گیا۔

ان کا شوہر اس جنگ میں قتل کردیا گیاتھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے اس شرط پر صلح کی تھی کہ اپنے اموال میں سے کچھ نہیں چھپائیں گے بصورت دیگران کی ذمہ داری اور عہد ختم ہوجائے گا، لیکن حضرت صفیہ ؓ کے شوہرکنانہ بن ربیع بن ابوالحقیق نے وہ گائے کا چمڑا غائب کردیا جس میں حی بن اخطب کے زیورات اور اموال تھے، اسے وہ اٹھا کر اپنے ساتھ خیبر میں لے آیا تھا۔
جب آپ ﷺ نے ان اموال اور زیورات کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا:
وہ جنگوں میں ختم ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں کنانہ کو روزانہ ایک ویرانے میں چکر لگاتے دیکھتا تھا، اس ویرانے میں وہ خود خزانہ پا گیا تو اسےبدعہدی کی وجہ سےقتل کردیا گیا۔

حضرت صفیہ ؓ کی حال ہی میں رخصتی ہوئی تھی اور وہ ابھی دلھن ہی تھیں جب انھیں قیدی بنا لیا گیا۔
(فتح الباري: 599/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4211   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 881  
´حق مہر کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 881»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب من جعل عتق الأمة صداقها، حديث:5086، ومسلم، النكاح، باب فضيلة إعتاقه أمته ثم يتزوجها، حديث:(84)-1365 بعد الحديث:1427.»
تشریح:
1. یہ حدیث‘ غلامی سے آزادی کو مہر مقرر کرنے کی صحت کے بارے میں بالکل واضح ہے۔
جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے مگر انھوں نے اپنے موقف پر کوئی قابل اطمینان دلیل پیش نہیں کی۔
2. اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منفعت کو مہر مقرر کرنا درست ہے کیونکہ آزادی بھی منفعت ہے، اور اس کی تائید میں وہ واقعہ بھی ہے جو پہلے گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو مہر مقرر کیا تھا۔
گویا مالیت کے علاوہ دوسری چیزیں بھی حق مہر مقرر کی جا سکتی ہیں۔
امام احمد اور امام اسحٰق رحمہما اللہ وغیرہما کا یہی موقف ہے۔
وضاحت: «حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ ام المومنین حضرت صفیہ‘ حُیَــي بـن أخـطب کی بیٹی تھیں۔
ان کا سلسلۂ نسب حضرت ہارون علیہ السلام برادر موسیٰ علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
آپ اسی خانوادۂ رسالت سے تھیں۔
کنانہ بن ابی الحقیق کی زوجیت میں تھیں جو غزوۂ خیبر میں قتل ہوگیا تھا اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قیدی بن گئیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے حرم کے لیے پسند فرمایا‘ پھر مسلمان ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور اسی آزادی کو مہر مقرر کیا۔
انھوں نے ۵۰ ہجری میں وفات پائی اور انھیں بقیع میں دفن کیا گیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 881   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 898  
´ولیمہ کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ کے درمیان تین روز تک قیام کیا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا سے اسی مقام پر شب باشی کی تو میں نے مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمہ کی دعوت دی۔ بس اس دعوت میں نہ روٹی تھی اور نہ گوشت اس تقریب میں بس یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق چٹائیاں بچھائی گئیں اور ان پر کھجوریں، پنیر اور مکھن چن دیا گیا۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 898»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب اتخاذ السراري......، حديث:5085، ومسلم، النكاح، باب فضيلة إعتاقه أمته ثم يتزوجها، حديث:1365 /3500.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران سفر میں شادی کرنا جائز ہے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی بیاہ اور ولیمے وغیرہ کی تقریبات میں سب رشتہ داروں کا شامل کرنا بھی لازمی اور ضروری نہیں۔
3. یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمے میں ایک سے زائد کھانے بھی جائز ہیں‘ البتہ اس میں اسراف سے بہرنوع اجتناب ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 898   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3344  
´غلامی سے آزادی کے بدلے شادی کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3344]
اردو حاشہ:
احناف وغیرہ کے نزدیک یہ طریقہ درست نہیں۔ مذکورہ واقعے کو وہ رسول اللہﷺ کا خاصہ قرار دیتے ہیں‘ حالانکہ صحابہ کرام ؓ نے اس سے تخصیص نہیں سمجھتی‘ نیز آزادی تو عموماً مال ہی سے ہوتی ہے‘ لہٰذا آزادی کا مہر بننا تو مالی منفعت بھی ہے۔ اس سے انکار عجیب بات ہے۔ خاصے کی نفی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے خود دوسرے لوگوں کے نکاح تعلیم قرآن کی شرط پر قراردیے تو آزادی کی شرط پر نکاح کیوں جائز نہیں ہوگا؟ خاصہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3344   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3345  
´غلامی سے آزادی کے بدلے شادی کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ خیبر کے موقع پر قید ہو کر آنے والی یہودی سردار حي بن اخطب کی بیٹی) صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا، حدیث کے الفاظ راوی حدیث محمد کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3345]
اردو حاشہ:
(1) دراصل اس راویت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں: محمد بن رافع اور عمروبن منصور۔ دونوں کے روایت کردہ الفاظ میں معمولی سا اختلاف ہوگا کیونکہ عمروبن منصور نے روایت بالمعنیٰ بیان کی ہے۔ بیان شدہ الفاظ محمد بن رافع کے ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) ام المومنین حضرت صفیہؓ غزوۂ خیبر میں یہودیوں کی شکست فاش کے بعد قید ہوگئی تھیں۔ ان کا نکاح تھوڑا عرصہ پہلے ہوا تھا۔ خاوند اسی جنگ میں مارا گیا۔ چونکہ وہ ایک عظیم سردار کی بیٹی اور ایک دوسرے سردار کی بیوی تھیں‘ لہٰذا لوگوں کے مطالبے پر نبیﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا۔ چونکہ قیدی غلام بن جاتے ہیں۔ وہ بھی غلام ہی تھیں۔ آپ نے انہیں آزاد فرما کر ان سے نکاح فرما لیا۔ اس طرح یہودیوں کی مخالفت میں زور نہ رہا۔ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔ حضرت صفیہؓ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل مبارکہ سے تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3345   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3383  
´دوران سفر کی رخصتی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ خیبر کے راستے میں تین دن گزارے، پھر ان کا شمار ان عورتوں میں ہو گیا جن پر پردہ فرض ہو گیا یعنی صفیہ آپ کی ازواج مطہرات میں ہو گئیں۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3383]
اردو حاشہ:
(1) تین دن کیونکہ جس آدمی کے گھر پہلے سے بیوی موجود ہو‘ پھر کسی اور عورت سے شادی کرلے اور وہ بیوہ ہو تو اس کے پاس خصوصی طور پر تین دن رات ٹھہرے گا۔ اور اگر وہ کنواری ہو تو اس کے پاس سات دن رات رہے گا‘ پھر باری مقرر کرے گا۔ حضرت صفیہ بھی بیوہ تھیں‘ لہٰذا آپ ان کے پاس تین دن ٹھہرے‘ پھر باری مقرر فرمائی…ﷺ…
(2) ان عورتوں میں بھی شامل تھیں یعنی وہ آپ کی لونڈی نہیں تھیں بلکہ آپ کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں کیونکہ آپ نے انہیں آزاد فرما کر ان سے نکاح کیا تھا۔ پردہ آزاد عورت کے ساتھ خاص تھا‘ اس لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3383   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2054  
´اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کے ثواب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2054]
فوائد ومسائل:
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خیبر کے یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔
اورفتح خیبر کے موقع پر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوگئی تھی۔
جب قیدی عورتیں جمع کی گیئں۔
تو حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبی ﷺمجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے۔
آپﷺ نےفرمایا جائو ایک لونڈی لے لو۔
انہوں نے جا کر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منتخب کرلیا۔
اس پر ایک آدمی نے آپﷺ کے پا س آکر عرض کیا۔
اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کردیا۔
حالانکہ صرف وہ آپ ﷺکے شایان شان ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا دحیہ کو صفیہ سمیت بلائو۔
حضرت وحیہ ان کو ساتھ لئے ہوئے حاضر ہوئے۔
آپ ﷺنے انھیں دیکھ کر حضرت وحیہ سے فرمایا قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لےلو۔
پھر آپ ﷺنے حضرت صفیہ پرالسلام پیش کیا۔
انہوں نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد آپ نے انہیں آزاد کرکے آپﷺنے ان سے شادی کرلی۔
اور ان کی آذادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔
مدینہ واپسی میں صد صہبا پہنچ کر وہ حیض سے پاک ہوگئیں۔
اس کے بعد ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپﷺکےلئے آراستہ کیا۔
اور رات کو آپﷺکے پاس بھیج دیا۔
آپ ﷺنے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صُبح کی۔
اور کھجور اور گھی اور ستو ملا کر ولیمہ کھلایا۔
اور راستے میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔
اس موقع پر آپﷺنے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا دریافت فرمایا یہ کیا ہے۔
کہنے لگیں۔
یا رسول اللہ ﷺ آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آکر گرا ہے۔
بخدا مجھے آپ ﷺکے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا۔
لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا۔
تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو (الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2995  
´خمس سے پہلے صفی یعنی جس مال کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے منتخب کر لیتے تھے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم خیبر آئے (یعنی غزوہ کے موقع پر) تو جب اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا، ان کا شوہر مارا گیا تھا، وہ دلہن تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے منتخب فرما لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم سد صہباء ۱؎ پہنچے، وہاں وہ حلال ہوئیں (یعنی حیض سے فارغ ہوئیں اور ان کی عدت پوری ہو گئی) تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2995]
فوائد ومسائل:
جنگ میں ہاتھ میں آنے والی لونڈیوں کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب تک حمل نہ ہونے کا یقین نہ ہو جائے ان سے صحبت جائز نہیں۔
اور یہی ان کی عدت ہے۔
اسے استبراء رحم (رحم کے صاف ہونے کا پتہ چل جانا) کہتے ہیں۔


سدا الصھباء خیبر سے باہر ایک جگہ کا نام ہے۔
سد کی سین پرپیش اور زبر دونوں منقول ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2995   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2998  
´خمس سے پہلے صفی یعنی جس مال کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے منتخب کر لیتے تھے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں خیبر میں سب قیدی جمع کئے گئے تو دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قیدیوں میں سے مجھے ایک لونڈی عنایت فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ ایک لونڈی لے لو، دحیہ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا، تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: اللہ کے رسول! آپ نے (صفیہ بنت حیی کو) دحیہ کو دے دیا، صفیہ بنت حیی قریظہ اور نضیر (کے یہودیوں) کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2998]
فوائد ومسائل:
اہل خیبر کو جنگ میں شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
ان کے مال پر قبضہ کر لیا گیا۔
اور قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنالیا گیا۔
اور یہ اس وقت جنگ کا معروف طریقہ تھا۔
مگر رسول اللہ ﷺ نے اس کے باوجود ایک سردار زادی کو اس کا مقام منصب دیا۔
وہ ایک صحابی کے حصے میں آچکی تھیں۔
آپ نے اسے واپس لے کر آزاد کر دیا۔
اور پھر ان کی مرضی سے انھیں اپنے حرم میں داخل کرکے انہیں مسلمان سوسائٹی میں اعلیٰ ترین مقام عطا کیا۔


اسلام جہاں حق کی ترویج اور دفاع کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
وہاںا نسانوں کوعزت بھی دیتا ہے۔
اس اقدام سے ایک مقصد یہ بھی تھا۔
کہ ان قبائل کی نفرت وعداوت کو الفت وقربت میں بدل کر انہیں اسلام کے قریب لایا جائے۔
اور یہی رسول اللہ ﷺ کے کثرت ازواج کی ایک اہم حکمت تھی۔
مستشرقین نے تعصب برتتے ہوئے جو الزام تراشی کی وہ ثابت شدہ حقائق کے خلاف ہے۔


حضرت دحیہ رضی اللہ عنہا سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو زبردستی نہیں لیا گیا تھا۔
بلکہ انہیں رسول اللہ ﷺ ان کے بدلے سات لونڈی غلام عنایت فرما کر اچھی طرح راضی کیا۔
بلکہ یہ بدلہ اتنا زیادہ تھا کہ تھوڑی دیرکےلئے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جو ان کے حصے میں رہیں اس کی برکت سے ان کو اپنے وہم وگمان سے زیادہ مل گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2998   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3744  
´نکاح ہونے پر ولیمہ کی دعوت کرنا مستحب ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں ستو اور کھجور کا ولیمہ کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3744]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ولیمہ کرنا مستحب ہے۔
اور جو میسرہوپیش کردینا چاہیے۔
ضرروی نہیں کہ گوشت ہی ہو۔
آج کل ولیمے کی سنت پر عمل کیا جاتا ہے۔
لیکن اصحاب حیثیت اس میں اتنا تکلف کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ اور اسراف وتبذیر کا یہ مظاہرہ اس کو شیطانی عمل میں تبدیل کردیتا ہے۔
(إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ) (بني إسرائیل۔
27)
فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
أعاذنا اللہ منه۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3744   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1909  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1909]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔
اس شخص نے غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں سے کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرکین کی مدد کی تھی اور یہودیوں کے دوسرے قبیلے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسعد کو بھی عہد شکنی پر آمادہ کیا تھا۔
جنگ خندق کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے ان کے قلعوں پر فوج کشی کی تو حیی بن اخطب بھی ان کی حمایت میں قلعہ بند ہو گیا، جب بنو قریظہ کے قلعے فتح ہوئے تو ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا گیا اور حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ قتل ہوا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا خاوند کنانہ بن ابو الحقیق بھی جنگ خیبر میں اپنی بد عہدی کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی قیدی عورتوں میں شامل کر لی گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کے مشورے سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے منتخب فرما لیا۔
آپ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔
بعد میں نبی ﷺ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے:
الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ص: 511)


(2)
ولیمے میں پکا ہوا کھانا ہونا ضروری نہیں۔
کوئی بھی چیز جو کسی معاشرے میں کھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہو ولیمے کی مہمانی میں پیش کی جاسکتی ہے۔

(3)
لونڈی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا جائے تو اسے آزاد بیوی والے تمام حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1909   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2272  
´جاندار کو جاندار کے بدلے زیادہ کر کے نقداً لینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو سات غلام کے بدلے خریدا ۱؎۔ عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا: دحیہ کلبی سے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2272]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں۔
جنگی قیدی بن کر مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔
غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حضرت دحیہ کلبی ؓ کے حصے میں آئیں۔
رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ سردار کی بیٹی ہے، اس لیے ان کا آپ کے پاس ہونا زیادہ مناسب ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حضرت دحیہ ؓ سے خرید لیا۔

(2)
غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت جائز ہے۔

(3)
غلاموں اور لونڈیوں کی خریدوفروخت کے بنیادی احکام ومسائل وہی ہیں جو جانوروں کی خرید وفروخت کے لیے ہیں لیکن غلام چونکہ انسان ہوتے ہیں، اس لیے ان کے بعض مسائل الگ ہیں جن کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔

(4)
غلام اور لونڈی کو آزاد کرنا ثواب ہے بالخصوص جبکہ وہ مسلمان ہوں اور نیک ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2272   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1218  
1218- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں ستو اور کھجوروں کے ذریعے (مہمانوں کی، تواضع کی تھی) سفیان کہتے ہیں: میں نے زہری کویہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا لیکن میں اس کو یاد نہیں رکھ سکا (میں نے بکرنامی جس راوی سے روایت نقل کی ہے) بکربن وائل ہمارے ساتھ زہری کی محفل میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1218]
فائدہ:
دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ولیمہ کر نا فرض ہے، اور ولیمہ رخصتی کے بعد ہوتا ہے، نہ کہ پہلے، بعض بے علم حضرات نے یہ شوشہ چھوڑا ہوا ہے کہ ولیمے کے لیے شرط ہے کہ بیوی سے صحبت کی جائے، اور پردہ بکارت پھٹے، یہ فضول بات ہے، اس کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ رخصتی کے وقت عورت حیض کی حالت میں بھی ہوسکتی ہے، اور سب کو معلوم ہے کہ حالت حیض میں صحبت کرنا حرام ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ولیمے میں سادہ سی چیز میں بھی پکانا درست ہیں مثلاً آلو روٹی، پالک کا سالن، اور روٹی وغیرہ۔ افسوس کہ لوگوں نے شادیوں کو مہنگا اور زنا کو سستا کر دیا ہے، ہمیں شادی کو سستا کر دینا چاہیے تا کہ زنا ختم ہو جائے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1216   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1232  
1232- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرات کی صبح خبیر پہنچے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اس وقت وہاں کے لوگوں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا تھا اور اپنے بیلچے وغیرہ لے کر اس میں سے باہر نکل رہے تھے، جب ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اپنے قلعے کی طرف واپس گئے اور بولے: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کا لشکر آگئے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کا لشکر آگئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! اللہ اکبر!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1232]
فائدہ:
اس حدیث میں خیبر کی فتح کا ذکر ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفار بزدل ہوتے ہیں، مسلمانوں کے پاس سب سے قیمتی دولت ایمان ہوتی ہے، بزدلی ایمان کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1230   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1234  
1234- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر فتح کرلیا تو ہمیں بستی سے باہر کچھ گدھے ملے، ہم نے انہیں ذبح کر کے پکانا شروع کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا: خبردار! بے شک اللہ اور ا س کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ان سے منع کر رہے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہیں اور شیطان کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ (راوی کہتے ہیں) تو ہنڈیاؤں میں جو کچھ موجود تھا اس سب انہیں الٹ دیا گیا حالانکہ وہ اہل رہی تھیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1234]
فائدہ:
اس حدیث میں گھریلو گدھے کی حرمت کا ذکر ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر قرآن و حدیث کی اتباع کرنے میں حریص تھے، کاش امت مسلمہ بھی اپنے اوپر قرآن و حدیث کی اطاعت کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح واجب کر لے، اور اپنی زندگی کا اوڑھونا بچھونا قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بنا لے، دونوں جہانوں کی کامیابی اسی میں ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1232   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3497  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا قصد کیا اور ہم نے اس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی سواری) خیبر کی گلیوں میں دوڑا دی (اور ہم نے بھی اپنی سواریاں دوڑائیں) اور میرا گھٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3497]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری دوڑا رہے تھے،
اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی سواریاں دوڑارہے تھے،
تیز رفتاری کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کھل گئی اور بھیڑکی بنا پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے مل گیا اور ان کی نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ننگی ران پر پڑ گئی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمداً اپنی ران ننگی نہیں کی تھی۔

چونکہ لشکر کے پانچ حصے ہوتے ہیں سب سے اگلا حصہ مقدمہ سب سے پچھلا حصہ ساقہ درمیان والا حصہ قلب جس پر اصل انحصار ہوتا ہے،
دایاں حصہ میمنہ اور بایاں حصہ میسرہ اس لیے لشکر کو خمیس کہہ دیتے ہیں۔

بقول بعض حضرت صفیہ کا نام زینب تھا۔
آپ کے اپنے لیے انتخاب کرنے پر صفیہ کا نام دیا گیا،
چونکہ وہ حسین و جمال اور خاندانی طور پر حسب و نسب والی شریف اور بنو قریظہ اور بنو نضیر کی آقا تھیں،
اس لیے جب حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درخواست پر انہیں بطور فضل وانعام ایک لونڈی لینے کا حق دیا گیا اور انھوں نے حضرت صفیہ کو پسند کر لیا اس پر ایک آدمی نے اعتراض کیا اور عرض کیا،
وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لائق اور مناسب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے عوض سات لونڈیاں دے کرانہیں واپس لے لیا تاکہ دوسروں کے دلوں میں ان کے بارے میں حسدوکینہ پیدا نہ ہو،
جو کسی خرابی یا فساد کا باعث بنے۔
اس لیے اس سے ہبہ کی واپسی کا جواز نہیں نکلتا۔

اس حدیث سے (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے)
ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی لونڈی کو اس شرط پر آزاد کرتا ہے کہ وہ اس سے اس کی آزادی کے عوض میں شادی کرے گا تو یہ جائز ہے،
اور اس لونڈی کو اپنے آقا سے بلا مہر نکاح کرنا ہو گا۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ،
امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
وغیرہم کا یہی موقف ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
کے نزدیک یہ شرط صحیح نہیں ہے۔
اس کو الگ مہر دینا ہو گا یا لونڈی کی قیمت مقرر کر کے،
اس قیمت کو مہر قراردینا ہو گا،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تبرعاً (اللہ کی رضا کے لیے)
آزادی دی تھی پھر اس کی رضا مندی سے بلا مہر شادی کرلی تھی،
اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے عورت بلا مہر اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہے،
لیکن ظاہر حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ جب آقا لونڈی سے بلا نکاح اور بلا مہر فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اگر وہ اس پر احسان کرتے ہوئے اس کو آزاد کر کے بلند مقام دے کر اس سے شادی کر لے تو اس کے لیے مہر کو کیوں لازم ٹھہرایاجائے۔
ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے مہر دے دے تو اچھی بات ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے سفر میں شادی اور رخصتی عمل میں لائی جا سکتی ہے اور ولیمہ میں رفقاء حصہ ڈال سکتے ہیں۔
ولیمہ کی دعوت کے لیے گوشت کا اہتمام کرنا ضروری نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3497   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4201  
4201. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے حضرت صفیہ‬ ؓ ک‬و قیدی بنا لیا، پھر انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ (راوی حدیث) ثابت نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: آپ ﷺ نے انہیں کیا حق مہر دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ خود ان کی ذات ہی حق مہر تھا، یعنی انہیں آزاد کر دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4201]
حدیث حاشیہ:
حضرت صفیہ ؓ خیبر کے یہودیوں میں بڑی خاندانی خاتون تھیں۔
انہوں نے نے جنگ سے پہلے ہی خواب دیکھا تھا کہ ایک چاند ان کی گود میں آگیا ہے۔
جنگ میں صلح کے بعد ان کے خاندانی وقار اور بہت سے خاندانی مصالح کے پیش نظر آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کرکے خود اپنے حرم میں لے لیا۔
اس طرح ان کا خواب پورا ہوا اور ان کا احترام بھی باقی رہا۔
تفصیلی حالات پیچھے بیان ہوچکے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4201   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5086  
5086. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےسیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و آزاد کیا اور انکی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5086]
حدیث حاشیہ:
صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا جو جنگ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما کر اپنے ازواج میں داخل فرمالیا تھا۔
حضرت امام ابو یوسف ومحمد اور حنابلہ اور ثوری اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ لونڈی کی آزادی یہی اس کا مہر ہو سکتی ہے اور حنفیہ و شافعیہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ایسا کرنا درست نہیں۔
اہلحدیث کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
اس میں صاف یہ ہے کہ آزادی ہی مہر قرار پائی۔
شافعیہ اور حنفیہ کہتے ہیں کہ حضرت انس کو دوسرے مہر کا علم نہیں ہوا تو انہوں نے اپنے علم کی نفی کی نہ اصل مہر کی۔
اہلحدیث کہتے ہیں کہ طبرانی اور ابوالشیخ نے خود حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا میری آزادی ہی میرا مہر قرار پائی۔
دلائل کے لحاظ سے یہی مسلک راجح ہے۔
اس لئے اہلحدیث کا مسلک ہی صحیح ہے۔
فتح الباری میں ہے۔
أخذ بظاھرہ من القدماء سعید ابن المسیب و إبراھیم النخعي وطاؤس و الزھري ومن فقھاء الأمصار الثوري و أبو یوسف و احمد و إسحاق قالوا إذا أعتق أمته علی أن یجعل عتقھا صداقھا صح العقد والعتق والمھر علی ظاھر الحدیث۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5086   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5159  
5159. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا۔ وہاں آپ نے سیدہ صفیہ بنت حیبی ؓ کے ساتھ خلوت فرمائی میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمے میں بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، گھی اور پنیر رکھ دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬ے متعلق کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے؟ چنانچہ انہوں نے (فیصلہ کرتے ہوئے) کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کو پردے میں رکھا تو امہات المومنین میں سے ہیں اور اگر پردے میں نہ رکھا تو وہ آپ کی باندی ہیں۔ جب سفر کا آغاز ہوا تو آپ نے ان کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور ان کے لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5159]
حدیث حاشیہ:
جس سے لوگوں نے جان لیا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم میں داخل فرما لیا اور آپ کو آزاد کر کے آپ سے شادی کر لی ہے۔
آپ تین دن برابر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے کیونکہ وہ ثیبہ تھیں۔
باکرہ کے پاس دولہا سات دن تک رہ سکتا ہے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ اس کے نکاح میں دوسری عورتیں بھی ہوں اس کے بعد وہ باری مقرر کرے گا تنہا ایک ہی عورت ہے تو اس کے لئے کوئی قید نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5159   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5169  
5169. سیدنا انس ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ صفیہ ؓ کو آزاد کیا، پھر ان سے نکاح کرلیا اور ان کا آزاد کرنا ہی حق مہر قرار پایا، پھر آپ نے ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5169]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ولیمہ کے لئے گوشت کا ہونا بطور شرط نہیں ہے۔
ملیدہ کھلا کر بھی ولیمہ کیا جا سکتا ہے آپ نے گھی پنیر اور ستو ملا کر یہ ملیدہ تیار کرایا تھا۔
سبحان اللہ کتنا مزید ار وہ ملیدہ ہوگا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیار کرائیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5169   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5387  
5387. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬ے (نکاح کے بعد ان کے) ہمراہ راستے میں قیام فرمایا: میں نے آپ کے ولیمے کے لیے مسلمانوں کو مدعو کیا۔ آپ ﷺ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا تو فوراً تعمیل کی گئی۔ پھر اس پر کھجور پنیر اور گھی ڈال دیا گیا ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا انس ؓ نے کہا: نبی ﷺ نے شب زفاف کے بعد ایک قسم کا حلوہ تیار کیا جو چمڑے کے ایک دسترخوان پر چن دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5387]
حدیث حاشیہ:
یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5387   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5085  
5085. سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خیبر اور مدینے کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا اور اسی مقام پر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خلوت کی۔ پھر میں نے آپ کے ولیمے کے لیے مسلمانوں کو دعوت دی۔ اس دعوت ولیمہ میں نہ روٹی تھی اور نہ گوشت ہی تھا، تاہم دسترخوان بچھانے کا حکمم دیا گیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی ڈال دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ کچھ مسلمانوں نے کہا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ کی لونڈی، اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کے لیے پردے کا اہمتمام فرمایا تو ام المومنین ہیں اور اگر پردے کا حکم نہ دیا تو آپ کی باندی ہے۔ بعد ازاں جب آپ کے وہاں سے کوچ کیا تو ان کے لیے اپنی سواری پر اپنے پیچھے جگہ بنائی، نیز ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5085]
حدیث حاشیہ:
اس سے ظاہر ہوا کہ وہ امہات المومنین میں داخل ہوچکی ہیں۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ آپ نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے اپنے حرم میں داخل فرما لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5085   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2235  
2235. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی توآپ سے حضرت صفیہ ؓ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کاشوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا پنے لیے منتخب فرمالیا۔ آپ انھیں خیبرسے ساتھ لے کر چلے۔ جب سدروحاء پر پہنچے تو حضرت صفیہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ آپ نے ان سے خلوت اختیار کی۔ پھر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر حلوہ تیار کرکے رکھ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے ارد گرد لوگوں میں اعلان کرو (کہ وہ آکر اسے کھائیں)۔ بس یہی حضرت صفیہ ؓ کے متعلق آپ کی طرف سے دعوت ولیمہ تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انس ؓ کابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اپنے پیچھے اپنی عباء سے حضرت صفیہ ؓ کے لیے جگہ ہموار کررہے تھے۔ پھر آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2235]
حدیث حاشیہ:
حضرت صفیہ ؓ حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔
یہ کنانہ رئیس خیبر کی بیوی تھیں اور یہ کنانہ وہی یہودی ہے جس نے بہت سے خزانے زیر زمین دفن کر رکھے تھے۔
اور فتح خیبر کے موقعہ پر ان سب کو پوشیدہ رکھنا چاہا تھا۔
مگر آنحضرت ﷺ کو وحی الٰہی سے اطلاع مل گئی۔
اور کنانہ کو خود اسی کے قوم کے اصرار پر قتل کر دیا گیا۔
کیوں کہ اکثر غربائے یہود اس سرمایہ دار کی حرکتوں سے نالاں تھے۔
اور آج بمشکل ان کو یہ مو قع ملا تھا۔
صفیہ ؓ نے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں ہے۔
جب انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ سے بیان کیا تو اس کی تعبیر کنانہ نے یہ سمجھ کر یہ نبی موعود ؑ کی بیوی بنے گی ان کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارا تھا۔
خیبر فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں تھی اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھی۔
بعد میں آنحضرت ﷺ کو ان کی شرافت نسبی معلوم ہوئی کہ یہ حضرت ہارون ؑ کے خاندان سے ہیں تو آپ نے حضرت دحیہ کلبی ؓ کو ان کے عوض سات غلام دے کر ان سے واپس لے کر آزاد فرما دیا۔
اور خود انہوں نے اپنے پرانے خواب کی بناء پر آپ سے شرف زوجیت کا سوال کیا، تو آنحضرت ﷺ نے اپنے حرم محترم میں ان کو داخل فرما لیا۔
اور ان کا مہر ان کی آزادی کوقرار دے دیا۔
حضرت صفیہ ؓ بہت ہی وفادار اور علم دوست ثابت ہوئیں۔
آنحضرت ﷺ نے بھی ان کی شرافت کے پیش نظر ان کو عزت خاص عطا فرمائی۔
اس سفر ہی میں آپ ﷺ نے اپنی عباءمبارک سے ان کا پردہ کرایا اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔
جس پر حضرت صفیہ ؓ نے اپنا پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہو گئیں۔
50ھ میں انہوں نے وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرماتے ہوئے کئی جگہ اسے مختصر اور مطول نقل فرمایا ہے۔
یہاں آپ کے پیش نظر وہ جملہ مسائل ہیں جن کا ذکر آپ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا ہے اور وہ سب اس حدیث سے بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ حضرت صفیہ ؓ لونڈی کی حیثیت میں آئی تھیں۔
آپ نے ان کو آزاد فرمایا اور سفر میں اپنے ہمراہ رکھا۔
اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2235   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2235  
2235. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ خیبر تشریف لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے خیبر کے قلعوں پر آپ کو فتح عطا فرمائی توآپ سے حضرت صفیہ ؓ بنت حیی بن اخطب کا حسن وجمال ذکر کیاگیا۔ ان کاشوہر قتل ہوچکا تھا اور وہ خود دلہن بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ا پنے لیے منتخب فرمالیا۔ آپ انھیں خیبرسے ساتھ لے کر چلے۔ جب سدروحاء پر پہنچے تو حضرت صفیہ حیض سے پاک ہوگئیں۔ آپ نے ان سے خلوت اختیار کی۔ پھر ایک چھوٹے سے دستر خوان پر حلوہ تیار کرکے رکھ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے ارد گرد لوگوں میں اعلان کرو (کہ وہ آکر اسے کھائیں)۔ بس یہی حضرت صفیہ ؓ کے متعلق آپ کی طرف سے دعوت ولیمہ تھی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت انس ؓ کابیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اپنے پیچھے اپنی عباء سے حضرت صفیہ ؓ کے لیے جگہ ہموار کررہے تھے۔ پھر آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2235]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آقا اپنی لونڈی کو سفر میں اپنے ہمراہ لے جاسکتا ہے لیکن استبرائے رحم سے قبل اس سے مجامعت کی اجازت نہیں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو اپنے لیے منتخب فرمالیا تھا جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ حضرت دحیہ کلبی ؓ کو دی تھیں؟ اس تعارض کو اس طرح ختم کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو حضرت دحیہ کو دی تھیں، پھر جب پتہ چلا کہ وہ تو سردار کی بیٹی ہیں تو اس وقت کے قانون کے مطابق سردار کی بیٹی اگر گرفتار ہو کر آتی تو سردار ہی کے حصے میں آتی، اس بنا پر آپ نے انھیں حضرت دحیہ ؓ سے سات غلاموں کے عوض واپس لے لیا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2235   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4201  
4201. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے حضرت صفیہ‬ ؓ ک‬و قیدی بنا لیا، پھر انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ (راوی حدیث) ثابت نے حضرت انس ؓ سے پوچھا: آپ ﷺ نے انہیں کیا حق مہر دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ خود ان کی ذات ہی حق مہر تھا، یعنی انہیں آزاد کر دیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4201]
حدیث حاشیہ:

یہ غزوہ خیبر کا واقعہ ہے کیونکہ اسی جنگ میں حضرت صفیہ ؓ کا شوہر کنانہ بن ابوالحقیق ایک بدعہدی کی بنا پرقتل کردیا گیا تھا۔
اس کے قتل کے بعد حضرت صفیہ ؓ کوقیدی عورتوں میں شامل کرلیا گیا۔
پہلے وہ وحیہ کلبی ؓ کے حصے میں آئیں، پھررسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے لیے منتخب فرمایا کیونکہ یہ شہزادی تھیں اور عام آدمی سے ان کی ہم آہنگی مشکل تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں آزاد کرکے ان سے شادی کرلی اور ان کی آزادی کو ہی حق مہر قراردیا۔
خیبر سے واپسی پر صبہاء پہنچ کر حیض سے پاک ہوئیں تو حضرت اُم سلیم ؓ نے انھیں رسول اللہ ﷺ کے لیے تیار کیا۔
اگلے دن آپ نے کھجور، گھی اور ستو ملا کر صحابہ کرام ؓ کو ولیمہ کھلایا۔
(صحیح البخاري، حدیث: 371،5425)

رسول اللہ ﷺ نے ان کے چہرے پر سبزنشان دیکھا تو فرمایا:
یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا:
اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے ایک خواب میں دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آگوش میں آگرا ہے۔
اللہ کی قسم! مجھے اس وقت آپ کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا، لیکن جب میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا اس نے میرے چہرے پرزوردار تھپڑ مارتے ہوئے کہا:
تم شاہ حجاز کے ہاں جانا چاہتی ہو جو مدینہ طیبہ میں ہے۔
(زاد المعاد: 327/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4201   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4213  
4213. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مدینہ اور خیبر کے درمیان تین شب قیام فرمایا۔ انہی راتوں میں حضرت صفیہ‬ ؓ س‬ے زفاف ہوا۔ میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمے کے لیے دعوت دی۔ اس ولیمے میں روٹی تھی نہ گوشت بلکہ آپ نے حضرت بلال ؓ کو صرف دسترخوان بچھانے کا حکم دیا، چنانچہ جب بچھا دیا گیا تو اس پر کھجوریں، پنیر اور گھی رکھا گیا۔ اب مسلمان کہنے لگے کہ حضرت صفیہ‬ ؓ ا‬مہات المومنین میں سے ہیں یا آپ کی کنیز ہیں؟ پھر خود ہی کہنے لگے: اگر آپ ﷺ انہیں پردے میں رکھیں گے تو امہات المومنین سے ہیں، اگر پردے میں نہ رکھیں گے تو لونڈی ہیں۔ پھر جب آپ ﷺ نے کوچ فرمایا تو حضرت صفیہ‬ ؓ ک‬ے لیے اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ان پر پردہ لٹکایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4213]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں اس مقام کی تعین نہیں جہاں آپ نے تین دن قیام فرمایا جبکہ ایک حدیث میں صبہاء (حدیث: 4211)
اور دوسری میں سدروحاء(حدیث: 2235)
کا ذکر ہے۔
اس مقام کے دو نام تھے یا دونوں مختلف مقام ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہیں، اس لیے ایک پردوسرے کا نام بولاجاتا ہے۔
یہ مقام خیبر سے مدینہ آتے ہوئے چھٹے میل پر واقع ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق سدروحاء 2۔
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ جب صحابہ کرام ؓ نے دعوت ولیمہ کھائی تو انھیں حضرت صفیہ ؓ کے متعلق تردد کیوں ہوا کہ وہ ام المومنین ہیں یا آپ کی کنیز ہیں؟ اس کی توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ مذکورہ تردد نکاح اور ولیمے سے پہلے تھا یا جنھیں تردد ہوا وہ ولیمے اور نکاح میں حاضر نہیں تھے، اگرولیمے میں حاضر تھے تو انھوں نے اسے عام دعوت خیال کیا، البتہ پردے کے بعد واضح ہوگیا کہ حضرت صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔
مدینے سے مکے کی جانب تیس میل سے کچھ زیادہ دور واقع ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4213   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5085  
5085. سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خیبر اور مدینے کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا اور اسی مقام پر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خلوت کی۔ پھر میں نے آپ کے ولیمے کے لیے مسلمانوں کو دعوت دی۔ اس دعوت ولیمہ میں نہ روٹی تھی اور نہ گوشت ہی تھا، تاہم دسترخوان بچھانے کا حکمم دیا گیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی ڈال دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ کچھ مسلمانوں نے کہا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ کی لونڈی، اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کے لیے پردے کا اہمتمام فرمایا تو ام المومنین ہیں اور اگر پردے کا حکم نہ دیا تو آپ کی باندی ہے۔ بعد ازاں جب آپ کے وہاں سے کوچ کیا تو ان کے لیے اپنی سواری پر اپنے پیچھے جگہ بنائی، نیز ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5085]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اس طرح ثابت کیا ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کے متعلق ابتدائی طور پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اور لونڈی ہونے میں تردد تھا، اسی تردد سے لونڈی رکھنے کا جواز ثابت کیا ہے، لیکن بعد میں انھیں یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا ہے اور وہ امہات المومنین میں شامل ہوچکی ہیں۔
(2)
اس کی عنوان سے مطابقت اس طرح بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5085   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5086  
5086. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےسیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و آزاد کیا اور انکی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5086]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما جنگ خیبر میں گرفتار ہوئی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا اور ان کی آزادی کو ان کا حق مہرقرار دیا۔
اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ظاہر حدیث کے پیش نظر لونڈی کی آزادی اس کا حق مہر ہو سکتی ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔
اس کے علاوہ طبرانی کی روایت میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ میری آزادی ہی میرا مہر قرار پائی۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 236، رقم: 8502) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے ظاہر کے پیش نظر متقدمین میں سے سعید بن مسیّب، ابراہیم نخعی، طاؤس، زہری، ثوری، ابو یوسف، امام احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا موقف ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو اس شرط پر آزاد کرتا ہے کہ اس کی آزادی ہی اس کا حق مہر قرار پائے گا تو عقد نکاح، آزادی اور حق مہر صحیح ہے اور ایسا کرنا جائز ہے، جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، کسی دوسرے کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔
دلائل کے اعتبار سے پہلا موقف زیادہ مضبوط ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 161/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5086   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5159  
5159. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا۔ وہاں آپ نے سیدہ صفیہ بنت حیبی ؓ کے ساتھ خلوت فرمائی میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمے میں بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، گھی اور پنیر رکھ دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬ے متعلق کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے؟ چنانچہ انہوں نے (فیصلہ کرتے ہوئے) کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کو پردے میں رکھا تو امہات المومنین میں سے ہیں اور اگر پردے میں نہ رکھا تو وہ آپ کی باندی ہیں۔ جب سفر کا آغاز ہوا تو آپ نے ان کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور ان کے لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5159]
حدیث حاشیہ:
(1)
عرب میں یہ رسم تھی کہ وہ شب زفاف کے وقت دلہا اور دلہن کے لیے ایک الگ خیمہ لگانے کا اہتمام کرتے تاکہ وہ اس میں خلوت کریں، اسے بنا سے تعبیر کیا جاتا۔
ویسے اس سے مراد جماع کرنا اور خلوت اختیار کرنا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے اپنے حرم میں داخل فرمایا:
دوران سفر میں آپ برابر تین دن تک ان کے پاس رہے کیونکہ وہ شوہر دیدہ تھیں۔
کنواری کے ساتھ ابتدا میں سات دن رہنے کی اجازت ہے، اس کے بعد باری کا اہتمام کیا جائے۔
یہ اس صورت میں ہے کہ خاوند کے نکاح میں دوسری عورتیں بھی ہوں۔
اگر تنہا ایک ہی بیوی ہے تو پھر باری وغیرہ کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔
(3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے موقع پر ولیمہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں نکاح کی شہرت ہو جائے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5159   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5169  
5169. سیدنا انس ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ صفیہ ؓ کو آزاد کیا، پھر ان سے نکاح کرلیا اور ان کا آزاد کرنا ہی حق مہر قرار پایا، پھر آپ نے ان کا ولیمہ ملیدہ سے کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5169]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ولیمے میں گوشت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ حالات و ظروف کے مطابق کسی بھی چیز سے ولیمہ کیا جا سکتا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سفر میں تھے، اس لیے آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کھجور، گھی، اور پنیر سے ملیدہ تیار کرایا اور مدعوین کی خاطر تواضع کی۔
وہ ملیدہ کس قدر مزے دار ہوگا جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کرایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5169   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5387  
5387. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬ے (نکاح کے بعد ان کے) ہمراہ راستے میں قیام فرمایا: میں نے آپ کے ولیمے کے لیے مسلمانوں کو مدعو کیا۔ آپ ﷺ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا تو فوراً تعمیل کی گئی۔ پھر اس پر کھجور پنیر اور گھی ڈال دیا گیا ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا انس ؓ نے کہا: نبی ﷺ نے شب زفاف کے بعد ایک قسم کا حلوہ تیار کیا جو چمڑے کے ایک دسترخوان پر چن دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5387]
حدیث حاشیہ:
(1)
"حيس" ایک قسم کا حلوہ ہے جو کھجور اور پنیر میں گھی ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد یہی آپ کا ولیمہ تھا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان استعمال کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمود و نمائش سے کوسوں دور تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5387