Note: Copy Text and to word file

بلوغ المرام
كتاب القضاء
قاضی ( جج ) وغیرہ بننے کے مسائل
2. باب الشهادات
شہادتوں (گواہیوں) کا بیان
حدیث نمبر: 1209
وعن أبي هريرة رضي الله عنه مثله. أخرجه أبو داود والترمذي وصححه ابن حبان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے۔ اس کی تخریج ابوداؤد اور ترمذی نے کی ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب القضاء باليمين والشاهد، حديث:3610، والترمذي، الأحكام، حديث:1343، وابن حبان.»

حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1209 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1209  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، القضاء، باب القضاء باليمين والشاهد، حديث:3610، والترمذي، الأحكام، حديث:1343، وابن حبان.»
تشریح:
ایک قسم اور ایک گواہی کے ساتھ فیصلہ کرنا اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو‘ اس صورت میں اس سے دوسرے گواہ کی جگہ قسم کو قبول کر لیا جائے گا۔
امام مالک‘ امام شافعی‘ احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اور جمہور علماء کی یہی رائے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مالی معاملات میں تو ایک گواہ اور ایک قسم جائز ہے‘ البتہ غیر مالی معاملات میں دو گواہوں کا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مالی معاملات ہوں یا غیر مالی معاملات دونوں میں دو گواہوں کا ہونا ضروری و لازمی ہے لیکن اس مسئلے میں تقریباً تیس کے قریب احادیث ان کے خلاف حجت ہیں۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے: ﴿ وَأَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ﴾ (الطلاق۶۵:۲) اور ﴿ وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ … الخ ﴾ (البقرۃ ۲:۲۸۲) لیکن ان آیات سے ان کا استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل ہی نہیں ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔
دیکھیے: (إعلام الموقعین:۱ /۳۲. ۳۸)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1209