Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4209
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَيْبَرَ، وَكَانَ رَمِدًا، فَقَالَ: أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَحِقَ بِهِ، فَلَمَّا بِتْنَا اللَّيْلَةَ الَّتِي فُتِحَتْ قَالَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا، أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يُفْتَحُ عَلَيْهِ"، فَنَحْنُ نَرْجُوهَا، فَقِيلَ: هَذَا عَلِيٌّ فَأَعْطَاهُ , فَفُتِحَ عَلَيْهِ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جا سکے تھے کیونکہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جا چکے) تو انہوں نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ سے پیچھے رہوں (ایسا نہیں ہو سکتا)؟ چنانچہ وہ بھی آ گئے۔ جس دن خیبر فتح ہونا تھا ‘ جب اس کی رات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں (اسلامی) عَلم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ عَلم وہ شخص لے گا جسے اللہ اور اس کا رسول عزیز رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہو گی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امیدوار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4209 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4209  
حدیث حاشیہ:

خیبر کی آبادی دوحصوں پرمشتمل تھی۔
ایک حصے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے۔

حصن ناعم۔

حصن صعب بن معاد۔

حصن زبیر۔

حصن ابی۔

حصن نزار۔
دوسرے حصے میں حسب ذیل تین قلعے تھے۔

حصن قموص۔

حصن وطیح۔

حصن سلالم۔
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں مگر وہ چھوٹی تھیں اورقوت وحفاظت کے اعتبار سے ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں، جہاں تک جنگ کا تعلق ہے۔
وہ صرف پہلے حصے میں ہوئی، دوسرے حصے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کےبغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔

حضرت بریدہ اسلمی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو جھنڈا دیا، وہ گئے لیکن فتح کیے بغیر واپس آگئے۔
اگلے دن حضرت عمر ؓ نے جھنڈا لیا لیکن وہ بھی اسے فتح نہ کرسکے۔
بالآخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جھنڈا دیا تو ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کیا۔
(مسند أحمد: 354/5)

سب سے پہلے مرحب نامی شہ زور اور جاں باز یہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کےبرابر سمجھاجاتا تھا۔
یہ قلعہ محل وقوع کے اعتبار سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔
حضرت علی ؓ نے اس کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔
اس کے بعد فتوحات کاسلسلہ شروع ہوگیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4209