Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب القضاء
قاضی ( جج ) وغیرہ بننے کے مسائل
2. باب الشهادات
شہادتوں (گواہیوں) کا بیان
حدیث نمبر: 1205
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أنه خطب فقال: إن أناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وإن الوحي قد انقطع وإنما نؤاخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم. رواه البخاري.
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ ہوتا تھا۔ اب وحی کا نزول بند ہو چکا ہے اب ہم تمہارا مواخذہ تمہارے اعمال کے مطابق کریں گے جیسے وہ ہمارے روبرو ظاہر ہوں گے۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب الشهداء العدول، حديث:2641.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1205 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1205  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب الشهداء العدول، حديث:2641.»
تشریح:
1. اس اثر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ گویا نبوت کی تکمیل ہوگئی۔
اب نہ کوئی نیا نبی و رسول آئے گا اور نہ آسمان سے وحی نازل ہو گی۔
اب اگر کوئی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو وہ سراسر دروغ گو‘ کذاب‘ دجال‘ مفتری اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
2.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو لوگوں کے بارے میں معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی تھی مگر اب ایک شخص کے رازوں اور بھیدوں کی جستجو اور تفتیش کیے بغیر اور ان کا سراغ لگائے بغیر ہم اس کے ظاہری حالات و اعمال کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔
اگر اس کے ظاہری اعمال و احوال شک و شبہ سے محفوظ ہیں تو وہ قابل اعتبار ہے اور اس کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1205   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2641  
2641. حضرت عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں سے وحی کی بنیاد پر باز پرس ہوتی تھی۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب ہم تمھارا مؤاخذہ تمھارے ظاہری اعمال پر کریں گے۔ جو کوئی بظاہر اچھا کام کرے گا، ہم اس پر اعتماد کریں گے اور اپنا ساتھی بنائیں گے۔ ہمیں اس کی دل کی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ دل کی باتوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرنے والا ہے۔ اور جس نے بظاہر کوئی براکام کیا تو ہم اس پر نہ بھروسا کریں گے اور نہ اسے سچا ہی قرار دیں گےاگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ اس کا باطن عمدہ اور اچھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2641]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کے قول سے ان بیوقوفوں کا رد ہوا جو ایک بدکار فاسق کو درویش اور ولی سمجھیں اور یہ دعویٰ کریں کہ ظاہری اعمال سے کیا ہوتا ہے، دل اچھا ہونا چاہئے۔
کہو، جب حضرت عمر ؓ ایسے شخص کو دل کا حال معلوم نہیں ہوسکتا تھا تو تم بے چارے کس باغ کی مولی ہو۔
دل کا حال بجز اللہ کریم کے کوئی نہیں جانتا۔
پیغمبر صاحب کو بھی اس کا علم وحی یعنی اللہ کے بتلانے سے ہوتا۔
حضرت عمر ؓ نے قاعدہ بیان کیا کہ ظاہر کی رو سے جس کے اعمال شرع کے موافق ہوں اس کو اچھا سمجھو اور جس کے اعمال شرع کے خلاف ہوں ان کو برا سمجھو۔
اب اگر اس کا دل بالفرض اچھا بھی ہوگا جب بھی ہم اس کے برا سمجھنے میں کوئی مواخذہ وار نہ ہوں گے کیوں کہ ہم نے شریعت کے قاعدے پر عمل کیا۔
البتہ ہم اگر اس کو اچھا سمجھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔
(وحیدی)
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ فاسق بدکار کی بات نہ مانی جائے گی یعنی اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔
معلوم ہوا کہ شاہد کے لیے عدالت ضروری ہے۔
عدالت سے مراد یہ ہے کہ مسلمان آزاد، عاقل، بالغ، نیک ہو، تو کافر یا غلام یا مجنون یا نابالغ یا فاسق کی گواہی مقبول نہ ہوگی۔
(وحیدی)
یہ بھی مقصد ہے کہ عادل گواہ کے ظاہری حالات کا درست ہونا ضروری ہے ورنہ اس کو عادل نہ مانا جائے گا۔
اسلام کا فتویٰ ظاہری حالت پر ہے۔
باطن اللہ کے حوالہ ہے۔
اس میں ان نام نہاد صوفیوں کی بھی تردید ہے جن کا ظاہر سراسر خلاف شرع ہوتا ہے اور باطن میں وہ ایمان دار عاشق خدا و رسول بنتے ہیں۔
ایسے مکار نام نہاد صوفیوں نے ایک خلقت کو گمراہ کررکھا ہے۔
ان میں سے بعض تو اتنے بے حیا واقع ہوئے ہیں کہ نماز روزہ کی کھلے لفظوں میں تحقیر کرتے ہیں، علماءکی برائیاں کرتے ہیں، شریعت اور طریقت کو الگ الگ بتلاتے ہیں۔
ایسے لوگ سراسر گمراہ ہیں۔
ہرگز ہرگز قابل قبولیت نہیں ہیں بلکہ وہ خود گمراہ اور مخلوق کے گمراہ کرنے والے ہیں۔
حضرت جنید بغدادی ؒ کا مشہور قول ہے کہ کل حقیقة لایشهد له الشرع فهو زندقة۔
ہر وہ حقیقت جس کی شہادت شریعت سے نہ ملے وہ بددینی اور بے ایمانی اور زندیقیت ہے۔
نعوذ باﷲ من شرور أنفسنا ومن سیآت أعمالنا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2641   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2641  
2641. حضرت عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں سے وحی کی بنیاد پر باز پرس ہوتی تھی۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب ہم تمھارا مؤاخذہ تمھارے ظاہری اعمال پر کریں گے۔ جو کوئی بظاہر اچھا کام کرے گا، ہم اس پر اعتماد کریں گے اور اپنا ساتھی بنائیں گے۔ ہمیں اس کی دل کی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ دل کی باتوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرنے والا ہے۔ اور جس نے بظاہر کوئی براکام کیا تو ہم اس پر نہ بھروسا کریں گے اور نہ اسے سچا ہی قرار دیں گےاگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ اس کا باطن عمدہ اور اچھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2641]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قبول شہادت کے لیے عدالت شرط ہے، البتہ صفتِ عدالت میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں انسان کے ظاہر کو دیکھا جائے گا بشرطیکہ اس کا کوئی عیب مشہور نہ ہو، باطنی معاملات پر عدالت کا دارومدار ہرگز نہیں۔
اس سلسلے میں جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عدالت، اسلام کے علاوہ ایک سے زائد صفات کا نام ہے، یعنی وہ شرعی احکام کا پابند ہو، مستحبات پر عمل کرنے والا ہو، نیز شریعت کے ناپسندیدہ اور حرام کاموں سے بچنے والا ہو۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کے لیے عدالت کی یہ شرط کافی ہے کہ اس کے ظاہر کو دیکھا جائے اس کے باطن کی کھوج نہ لگائی جائے۔
(3)
حضرت مالک بن دخیشن ؓ کا ظاہری چال چلن نفاق پر مبنی تھا لیکن وحی نے ان کے ظاہر کی تردید کر کے ان کے ایمان کی تصدیق کر دی۔
اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اس لیے فیصلہ کرتے وقت ظاہر کو دیکھا جائے گا۔
گواہ بظاہر اچھا ہے تو اس کے بیان کو تسلیم کیا جائے گا اور اگر ظاہر میں برا ہے تو اس کی گواہی رد کر دی جائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2641