بلوغ المرام
كتاب القضاء
قاضی ( جج ) وغیرہ بننے کے مسائل
1. (أحاديث في القضاء)
(قضاء کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1197
وعن أبي بكرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة» رواه البخاري.
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ایسی قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جو عورت کو اپنا حاکم و فرمانروا بنا لے۔“ (بخاری)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم، إلي كسرٰي و قيصر، حديث:4425.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1197 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1197
تخریج: «أخرجه البخاري، المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم، إلي كسرٰي و قيصر، حديث:4425.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت کی سربراہی موجب بربادی ہے۔
2. تاریخ اسلام میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔
3.عہد رسالت کے بعد امہات المومنین میں سے بھی کسی کو یہ منصب نہیں سونپا گیا۔
4.جب عورت گھر کی سربراہ نہیں تو ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں کس طرح دی جا سکتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1197
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5390
´عورتوں کو قاضی (جج) بنانا منع ہے۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی وجہ سے روکے رکھا ۱؎ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، جب کسریٰ ہلاک ہوا تو آپ نے فرمایا: ”انہوں نے کسے جانشین بنایا؟“ لوگوں نے کہا: اس کی بیٹی کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے کسی عورت کو حکومت کے اختیارات دے دیے۔“ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5390]
اردو حاشہ:
(1) عورت کو قاضی اور جج بنانا اور اس سے فیصلے کرانا درست نہیں، شرعاً یہ ممنوع ہے۔
(2) عورت کا دائرہ کار مرد کے دائرہ کار سے مختلف ہے۔ عورت کے ذمے گھریلو امور کی نگرانی ہے جب کہ بیرونی امور، مثلاً: کاروبار، ملازمت، حکومت و قضاء وغیرہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ پھر جن معاملات میں مرد و عورت کا اختلاط ہوتا ہے، ان میں عورت ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی۔ اسی لیے عورت کا امام نہیں بنایا جا سکتا، خواہ وہ صاحب علم و فضل ہی ہو۔ قضاء اور امارت میں تو عموماً واسطہ ہی مردوں سے پڑتا ہے۔ ویسے بھی یہ گھریلو معاملہ نہیں، لہٰذا عورت کے لیے قضاء و امارت جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں کسی عورت کو کسی ملکی منصب پر مقرر نہیں کیا گیا اگرچہ اس دور میں بلند مرتبہ خواتین کی کمی نہیں تھی کیونکہ وہ پردے میں رہنے کی پابند ہیں۔ بعد والے ادوار میں بھی اس بات پر ہی عمل جاری رہا۔ اور اہل علم کا بھی اس بات پر اجماع ہے۔
(3) ”بچا لیا“ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ حضرت عائشہ عنہا کی طرف ہے۔ جب وہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں مکہ سے بصرہ تشریف لائی تھیں۔ ان کے ساتھ بڑے بڑے صحابہ تھے۔ راستے میں لوگ ملتے گئے حتیٰ کہ لشکر عظیم بن گیا کیونکہ ان کا مطالبہ صحیح تھا، اس لیے حضرت ابوبکرہ ؓ نے بھی ان کا ساتھ دینے کا ارادہ فرمایا مگر جب دیکھا کہ لشکر کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہے تو مندرجہ بالا فرمان رسول کے پیش نظر وہ پیچھے ہٹ گئے۔
(4) اگرچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہ تو حکومت کے خواہاں تھیں، نہ کوئی عہدہ طلب کر رہی تھیں صرف قصاص کا مطالبہ کر رہی تھیں اور یہ مطالبہ ہر مسلمان کر سکتا تھا مگر لشکر کی قیادت کی صورت میں یہ بات مناسب نہیں تھی۔ اس پر وہ خود بھی بعد میں اظہار تأسف کرتی رہیں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، لہٰذا کوئی اعتراض نہ رہا۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا
(5) ”اس کی بیٹی کو“ درمیان میں کسریٰ پرویز کا بیٹا بھی بادشاہ رہا مگر وہ صرف چھ مہینے کے لیے، اس لیے اس کا شمار نہیں کیا گیا۔
(6) ”کامیاب نہیں ہوگی“ آخرت میں یا دنیا میں بھی کیونکہ حکومت عورت کا میدان نہیں۔ وہ اس میں مردوں سے مات کھا جاتی ہے۔ تاریخ ملاخطہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5390
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2262
´جس قوم کی حکمراں عورت ہو گی وہ کامیابی سے ہرگز ہم کنار نہ ہو گی۔`
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک چیز سے بچا لیا جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا تھا، جب کسریٰ ہلاک ہو گیا تو آپ نے پوچھا: ان لوگوں نے کسے خلیفہ بنایا ہے؟ صحابہ نے کہا: اس کی لڑکی کو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا“، جب عائشہ رضی الله عنہا آئیں یعنی بصرہ کی طرف تو اس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد کی ۱؎، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بچا لیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2262]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے اشارہ جنگ جمل کی طرف ہے جو قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کی خاطر پیش آئی تھی،
عثمان رضی اللہ عنہ جب شہید کردیے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی،
پھر طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما مکہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں ان کی ملاقات عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی جو حج کے ارادے سے گئی تھیں،
پھر ان سب کی رائے متفق ہوگئی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے بصرہ چلیں،
علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ پہنچے،
پھر حادثہ جمل پیش آیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2262
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7099
7099. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایام جمل کے دوران میں ایک ہی بات کے ذریعے سے فائدہ پہنچایا۔ جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنہوں نے اپنے (حکومتی) معاملات ایک عورت کے حوالے کر دیے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7099]
حدیث حاشیہ:
جنگ جمل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل فریق کی سردار تھیں، نتیجہ ناکامی ہوا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کا یہی مطلب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھڑکانے والے چند منافق قسم کے فسادی لوگ تھے۔
جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے مسلمانوں کو آپ میں لڑانا چاہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اپنا جادو چلا کر ان کو سردار فوج بنا لیا اور جنگ جمل واقع ہوئی، جس میں سراسر منافق یہودی صفت لوگوں کا ہاتھ تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7099
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4425
4425. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے جمل کی لڑائی میں اللہ تعالٰی نے ایک کلمے کی وجہ سے بہت فائدہ پہنچایا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔ قریب تھا کہ میں اصحاب جمل کے ساتھ شریک ہو جاتا اور ان کی معیت میں لڑائی کرتا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ اہل فارس نے کسرٰی کی بیٹی کو اپنی ملکہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی جنہوں نے اپنی حکومت کا والی ایک عورت کو بنا لیا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4425]
حدیث حاشیہ:
الاخری یہ حدیث کسری کو خط لکھنے کا تکملہ ہے کہ کسری کو اس کے بیٹے شیرویہ نے نو ہجری گیارہ جمادی کو قتل کر دیا چھ ماہ تک وہ ایران کا بادشاہ رہا۔
ایک دن خزانے میں اسے ایک دوا کی شیشی ملی جس پر "قوت باہ کی دوا" لکھا ہوا تھا۔
اس میں زہر تھا۔
شیرویہ نے اسے کھایا تو ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد شقوت و بد بختی اس خاندان کا مقدر بن گئی۔
سربراہی کے لیے اس خاندان میں کوئی مرد نہ تھا تو کسری کی پوتی، شیرویہ کی بیٹی بوران کو ملک کا حکمران بنادیا گیا۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی حکمران عورت ہو۔
“ حتی کہ حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں اس کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو سر براہ مملکت بنانا جائز نہیں۔
خلاف ورزی کی صورت میں برے انجام سے دوچار ہونا یقینی ہے جیسا کہ پاکستان اس کا دوبار تجربہ کر چکا ہےزنانہ حکومت کی وجہ سے ملک میں جو نحوست پھیلی ہے اس کی ابھی تک تلافی نہیں ہو سکی۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7099
7099. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایام جمل کے دوران میں ایک ہی بات کے ذریعے سے فائدہ پہنچایا۔ جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا سربراہ بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنہوں نے اپنے (حکومتی) معاملات ایک عورت کے حوالے کر دیے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7099]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جنگ جمل بہت بڑا فتنہ تھی۔
اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے۔
اس معرکے کو جمل اس لیے کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک عسکر نامی اونٹ پر سوار تھیں جسے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے لیے مہیا کیا تھا۔
2۔
واضح رہے کہ یہ جنگ امر خلافت سے متعلق نہ تھی بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مطالبہ تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو ان کے کیمپ میں پناہ گزیں تھےاور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف تھا کہ ابھی میری حکومت مستحکم نہیں ہوئی، اس لیے اس معاملے میں کچھ تاخیر کرلی جائے۔
3۔
اگرچہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہم نوا تھے لیکن وہ جنگ میں شریک نہ ہوئے کیونکہ اس میں قیادت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث کو بنیاد بنا کر انھوں نے کنارہ کشی اختیار کی۔
اس معاملے میں ان کا موقف کسی حد تک درست اور مبنی برحقیقت تھا کیونکہ انھوں نے ان حالات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ساتھ نہیں دیا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7099