Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الأيمان والنذور
قسموں اور نذروں کے مسائل
1. (أحاديث في الأيمان والنذور)
(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1181
وعن عقبة بن عامر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏كفارة النذر كفارة يمين» ‏‏‏‏ رواه مسلم وزاد الترمذي فيه:«‏‏‏‏إذا لم يسم» ‏‏‏‏ وصححه. ولأبي داود من حديث ابن عباس مرفوعا: «‏‏‏‏من نذر نذرا لم يسمه فكفارته كفارة يمين ومن نذر نذرا في معصية فكفارته كفارة يمين ومن نذر نذرا لا يطيقه فكفارته كفارة يمين» ‏‏‏‏ وإسناده صحيح إلا أن الحفاظ رجحوا وقفه. وللبخاري من حديث عائشة: «‏‏‏‏ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه» . ولمسلم من حديث عمران: «‏‏‏‏لا وفاء لنذر في معصية» .
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نذر کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہی ہے۔ (مسلم) ترمذی نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ جب اس کا نام نہ لے۔ (اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے) اور ابوداؤد میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت میں ہے کہ جب کسی نے کوئی نذر مانی اور اس کا نام نہیں لیا تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے اور جس نے معصیت کی نذر مانی ہو تو اس کا کفارہ بھی کفارہ قسم ہی ہے اور جس نے ایسی نذر مانی جس کی طاقت وہ نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ بھی قسم کا کفارہ ہی ہے۔ اس کی سند صحیح ہے مگر حفاظ حدیث نے اس روایت کے موقوف ہونے کو راجح بتایا ہے اور بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جس نے اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانی تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔ اور مسلم میں عمران سے مروی ہے کہ گناہ و معصیت کی نذر کو پورا نہیں کرنا چاہیئے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، النذر، باب في كفارة النذر، حديث:1645، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1528، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3322، وسنده حسن، وحديث عائشة: أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، حديث:6700، وحديث عمران: أخرجه مسلم، النذر، حديث:1641.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1181 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1181  
تخریج:
«أخرجه مسلم، النذر، باب في كفارة النذر، حديث:1645، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1528، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3322، وسنده حسن، وحديث عائشة: أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، حديث:6700، وحديث عمران: أخرجه مسلم، النذر، حديث:1641.»
تشریح:
1. «کَفَّارَۃُ یَمِینٍ» قسم کا کفارہ ارشاد الٰہی کے مطابق یوں ہے: ﴿اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ﴾ (المآئدۃ۵:۸۹)دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو‘ یا انھیں کپڑے دینا یا غلام آزاد کرنا ہے۔
جو شخص اس کی ہمت نہ رکھتا ہو تو اسے تین روزے رکھنے ہوں گے۔
یہ ہے تمھاری قسموں کا کفارہ جب تم قسم کھا لو۔
2. امام شوکانی رحمہ اللہ نے نذر سے متعلق تمام روایات کو جمع کرنے کے بعد یہ خلاصہ تحریر کیا ہے کہ اگر معین نذرنیکی سے متعلق ہو‘ لیکن اس پر عمل کرنا طاقت سے باہر ہو تو اس میں قسم کا کفارہ ہے۔
اور اگر وہ انسانی طاقت و وسعت کے اندر ہو تو اس کا پورا کرنا واجب ہے‘ چاہے اس کا تعلق بدن سے ہو یا مال سے۔
اور اگر وہ نذر کسی معصیت کی ہو تو اسے پورا نہ کرنا واجب ہے لیکن اس میں کفارے کی ادائیگی ضروری نہیں۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے، تاہم امام احمد، امام ابو حنیفہ اور بعض محققین کے نزدیک ضروری ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں اس پربحث کی ہے۔
دیکھیے: (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱ /۸۶۳،۸۶۴، رقم: ۴۷۹) اگر اس نذر کا تعلق جائز اور مباح امر سے ہو اور وہ انسانی طاقت سے بالا بھی نہ ہو تو وہ نذر بھی منعقد ہو جائے گی اور اس میں کفارے کی ادائیگی بھی لازم ہو گی‘ جیسے پیدل حج کرنے والی صحابیہ کو آپ نے پیدل حج پر جانے سے منع فرمایا اور اسے سوار ہونے اور کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
اور اگر وہ کام انسانی طاقت سے بالا ہو تو اس میں کفارہ واجب ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (نیل الأوطار‘ أبواب الأیمان وکفارتھا‘ باب من نذر نذرا لم یسمہ ولا یطیقہ:۸ /۲۷۶۔
۲۷۸)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1181   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 12  
´ کتاب وسنت کے خلاف اور غلط نذر پوری کرنا جائز نہیں`
«. . . مالك عن طلحة بن عبد الملك الايلي عن القاسم بن محمد عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من نذر ان يطيع الله فليطعه، ومن نذر ان يعصي الله فلا يعصه . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 12]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري6696، من حديث مالك به]
تفقه:
① کتاب وسنت کے خلاف اور غلط نذر پوری کرنا جائز نہیں ہے مثلاً اگر کسی نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اس کا یہ کام ہوگیا تو وہ فلاں قبر پر چڑھاوا چڑھائے گا تو یہ نذر پوری کرنا حرام ہے کیونکہ یہ شرکیہ نذر ہے۔
② ایک آدمی نے نذر مانی تھی کہ کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں، سائے میں نہیں جائے گا اور بات نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حکم دو کہ بات کرے، سائے میں جائے، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ [صحيح بخاري: 6704]
③ ایک عورت نے آ کر ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے تو ابن عباس نے فرمایا: اپنے بیٹے کو ذبح نہ کرنا اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔ ایک آدمی نے پوچھا: اس میں کفارہ کس طرح ہے؟ تو ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ظہار کرنے والوں کے لئے کفارہ مقرر کیا ہے۔ [الموطا 476/2 ح1٠48 وسنده صحيح]
④ بعض لوگ عادت کے طور پر ویسے ہی قسمیں کھاتے رہتے ہیں مثلاً واللہ وغیرہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے لغو قسم قرار دیا ہے۔ [الموطأ 2/477 ح1050، وسنده صحيح]
⑤ اگر کوئی شخص قسم کھا کر ان شاء اللہ کہہ دے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس پر کفارہ نہیں ہے۔ [ديكهئے الموطأ 2/477 ح1051، وسنده صحيح]
⑥ عام قسم کا کھانا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس مسکینوں کو ایک مد گندم کا کھانا کھلانا ہے اور اگر تاکیدی قسم ہو تو ان کے نزدیک ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا ہے۔ [الموطا 579/2 ح1٠53 وسنده صحيح]
⑦ غیر الله کے نام کی نذر و نیاز ماننا ہی حرام ہے چہ جائے کہ اسے پورا کیا جائے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 188   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3837  
´اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کی نذر کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کی نذر مانے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے، اور جو اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر مانے تو اس کی نافرمانی نہ کرے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3837]
اردو حاشہ:
نیکی چونکہ مطلوب ہے‘ لہٰذا وہ جس طور پر بھی ممکن ہو کرنی چاہیے۔ اگرچہ نذر ماننا اتنا اچھا کام نہیں مگر نیکی چونکہ اچھا کام ہے‘ اس لیے وہ لازماً کی جائے۔ نیکی تو نذر کے بغِیر بھی کرنی چاہیے۔ نذر کے ساتھ مزید مؤکد ہوگئی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3837   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3838  
´معصیت و گناہ کی نذر ماننے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کی نذر مانے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کی اطاعت کرے، اور جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی نذر مانے گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3838]
اردو حاشہ:
نافرمانی ہر حال میں بہت بری ہے اور نذر مان کر نافرمانی کرنا مزید قبیح ہے۔ نذر ماننے سے کوئی برائی نیکی نہیں بن سکتی‘ لہٰذا نذر کے بہانے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنا جائز نہ ہوگا بلکہ مزید گناہ ہوگا‘ ا س لیے نافرمانی کی نذر پوری نہ کی جائے بلکہ اس کا کفارہ دے دیا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3823)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3838   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3868  
´نذر کے کفارہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: کہا گیا ہے کہ زہری نے اسے ابوسلمہ سے نہیں سنا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3868]
اردو حاشہ:
اس روایت کی سند میں جیسا کہ امام صاحب نے فرمایا: ’انقطاع ہے لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3868   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3870  
´نذر کے کفارہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معصیت (گناہوں کے کاموں) میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: سلیمان بن ارقم متروک الحدیث راوی ہے، واللہ اعلم، اس حدیث کے سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کے تلامذہ میں سے کئی ایک نے سلیمان بن ارقم کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3870]
اردو حاشہ:
مخالفت یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر کے باقی شاگرد اسے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جبکہ سلیمان بن ارقم نے اسے سیدہ عائشہؓ کی مسند بنایا ہے۔ سلیمان بن ارقم متروک الحدیث ہے جس کی بنا پر یہ راویت سنداً ضعیف ہے لیکن شواہد کی بنا پر صحیح اور قابل عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3870   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3290  
´معصیت کی نذر نہ پوری کرنے پر کفارہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معصیت کی نذر نہیں ہے (یعنی اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے) اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3290]
فوائد ومسائل:
اس کفارے کا بیان پیچھے حدیث 3279 کے شروع میں گزر چکا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3290   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2125  
´نافرمانی (گناہ) کی نذر ماننے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معصیت (گناہ) میں نذر نہیں ہے، اور ایسی نذر کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2125]
اردو حاشہ:
فائدہ:
کفار ے کے لیے دیکھیے فوائد حدیث: 2107۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2125   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1524  
´معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1524]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی،
البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا،
نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں،
امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں،
قسم کے کفارے کا ذکراس آیت کریمہ میں ہے:
﴿لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾ (المائدة: 89) (اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغوقسم پرتم سے مواخذہ نہیں فرماتالیکن مواخذہ اس پر فرماتاہے کہ تم جن قسموں کو موکد کردو،
اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے،
پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین صیام رکھنے ہوں گے،
یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے،
)
یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضاکرتی ہے،
امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں،
ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں،
لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں،
ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1524   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1525  
´معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی نذر جائز نہیں ہے، اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1525]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں سلیمان بن ارقم ضعیف ہیں،
مگر سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1525   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6700  
6700. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے چاہیئے کہ وہ اطاعت کرے اور جس نے اس (اللہ) کی نافرمانی کی نذر مانی تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6700]
حدیث حاشیہ:
بلکہ ایسی نذر ہرگز پوری نہ کرے وفاداری کا یہی تقاضا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6700   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6696  
6696. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے نذر مانی کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اسے پورا کرے اور جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اس (اللہ تعالٰی) کی نا فرمانی نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6696]
حدیث حاشیہ:
(1)
نذر طاعت امر واجب میں ہوتی ہے اور امر مستحب میں بھی۔
امر واجب کی مثال یہ ہے کہ میں اول وقت میں نماز پڑھوں گا۔
اسے حتی المقدور اس پر عمل کرنا ہو گا، یعنی اول وقت میں نماز ادا کرنا ہو گی اور امر مستحب کی مثال دیگر مالی اور بدنی عبادات ہیں۔
نذر کے بعد اس قسم کی عبادت واجب ہو جاتی ہے۔
(2)
مذکورہ حدیث اس امر میں صریح ہے کہ نذر طاعت کو پورا کرنا ضروری ہے اور اگر کسی معصیت اور گناہ و نافرمانی کی نذر ہے تو اس کا ترک کر دینا ضروری ہے۔
نذر معصیت کے ترک پر کفارہ دینا ہو گا یا نہیں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
(فتح الباري: 709/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6696   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6700  
6700. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے چاہیئے کہ وہ اطاعت کرے اور جس نے اس (اللہ) کی نافرمانی کی نذر مانی تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6700]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں گناہ کی نذر کے متعلق حکم بتایا گیا ہے کہ اسے پورا نہیں کرنا چاہیے لیکن غیر کی ملکیت کے متعلق نذر ماننے کا حکم اس حدیث میں بیان نہیں ہوا لیکن جو انسان کسی چیز کا مالک نہیں، اس کے متعلق نذر ماننا گویا غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا ہے۔
یہ معصیت اور گناہ ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں اجزاء کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے، لہذا یہ حدیث عنوان بالا کے عین مطابق ہے۔
(فتح الباري: 174/11) (2)
واضح رہے کہ غیر مملوکہ چیز کی نذر ماننا یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے اگر مجھے شفا مل گئی تو میں فلاں کے غلام کو آزاد کروں گا جبکہ وہ غلام اس کی ملک نہیں ہے۔
اسی طرح معصیت کی نذر یہ ہے کہ کوئی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانے، اس طرح کی نذر شرعاً جائز نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6700