تخریج: «أخرجه مسلم، الأضاحي، باب سن الأضحية، حديث:1963.»
تشریح:
اس حدیث میں صراحت ہے کہ قربانی کے لیے بھیڑ کا جذعہ تب جائز ہے جب دو دانتا جانور میسر نہ ہو۔
لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ بھیڑ کے جذعے کی قربانی بہرصورت جائز ہے‘ دو دانتا ملے یا نہ ملے۔
اور انھوں نے اس حدیث کو استحباب اور افضلیت پر محمول کیا ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کی رائے ہے۔
اور دلائل کی رو سے یہی موقف اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔
گویا اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تمھارے لیے مستحب اور افضل یہ ہے کہ دو دانتا ہی ذبح کرو۔
اگر تم عاجز ہو اور تمھارے بس میں نہ ہو تو پھر بھیڑ کی جنس‘ یعنی دنبے اور چھترے کا جذعہ ذبح کر لو۔
رہا بھیڑ کے سوا کسی اور جنس کا جذعہ!تو وہ کسی صورت میں قربانی کے لیے کفایت نہیں کر سکتا۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(سنن ابن ماجہ، اردو‘ طبع دارالسلام‘ حدیث: ۳۱۴۰‘ ۳۱۴۱ کے فوائد و مسائل)