تخریج: «أخرجه البخاري، الحج، باب من نحر هدية بيده، حديث:1712، حديث:5553، 5558 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه مسلم، الأضاحي، حديث:1967.»
تشریح:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موٹے تازے جانور کی قربانی محبوب تھی۔
2.قربانی سے پہلے چھری خوب تیز کر لینی چاہیے۔
3. جانور کو پہلو کے بل لٹا کر ذبح کرنا چاہیے۔
4. ذبح سے پہلے مسنون دعا اور تکبیر پڑھنی چاہیے۔
مذکورہ حدیث میں مذکور دعا کے علاوہ بھی ایک دعا ذبح کرتے وقت پڑھنا ثابت ہے۔
اور وہ دعا یہ ہے:
«إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلأَرضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ‘ إِنَّ صَلاَتِي وَ نُسُکِي وَ مَحْیَايَ وَ مَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ اَللّٰھُمَّ! مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ أُمَّتِہِ بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ» (مسند أحمد:۳ /۳۷۵‘ وسنن أبي داود‘ الضحایا‘ باب ما یستحب من الضحایا‘ حدیث: ۲۷۹۵) دعا میں مذکور الفاظ:
«عَنْ مُحَمَّدٍ وَ أُمَّتِہِ» کے بجائے اپنا اور اہل و عیال کا نام لے یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔
5. اہل خانہ کی طرف سے ایک جانور قربانی کرنے سے سنت ادا ہو جاتی ہے۔
6. قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنی چاہیے گو اس میں نیابت بھی جائزہے۔
7.میت کی طرف سے قربانی کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔
دیکھیے:
(إرواء الغلیل: ۴ /۳۵۴) علاوہ ازیں خیرالقرون
(صحابہ و تابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔
صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے‘ یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(سنن ابوداود ‘ اردو‘ طبع دارالسلام‘ حدیث: ۲۷۹۰ کے فوائد و مسائل)