Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجهاد
مسائل جہاد
1. (أحاديث في الجهاد)
(جہاد کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1119
وعنه رضي الله عنه قال: كانت أموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب فكانت للنبي صلى الله عليه وآله وسلم خاصة فكان ينفق على أهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله عز وجل. متفق عليه.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پلٹا دئیے ہیں۔ جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔ یہ اموال خالص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال میں سے اپنی بیویوں پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو باقی بچ رہتا اس سے گھوڑے اور اسلحہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے خرید فرماتے۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1119 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1119  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.»
تشریح:
بنو نضیر‘ مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔
ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔
انھوں نے بقول بعض‘ غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد اور بقول ابن اسحٰق ‘احد اور بئر معونہ کے واقعے کے بعد عہد شکنی کا ارتکاب کیا۔
تنبیہ اور یاددہانی کے باوجود وہ باز نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان کا محاصرہ کر لیا۔
بالآخر وہ محاصرے کی تاب نہ لا کر اپنے گھر بار اور مال چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے اور بغیر کسی قسم کی لڑائی کے ان کے اموال آپ کے ہاتھ آگئے۔
یہ اموال فے قرار پائے‘ اس لیے کہ لڑائی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی‘ اس لیے بحیثیت غازی تو کسی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہیں تھا‘ تاہم آپ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا اور دو انصاری صحابہ کو بھی حسب ضرورت عطا فرمایا۔
باقی مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرتے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1119   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4145  
´باب:`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مال غنیمت مال فی میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لیے صرف کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4145]
اردو حاشہ:
(1) بنو نضیر ایک یہودی قبیلہ تھا جس کو ان کی بدعہدی کی سزا میں مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنا سامان وغیرہ تو ساتھ لے گئے تھے، البتہ ان کی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی تھیں لیکن وہ بیت المال کی ملکیت تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ذاتی اور گھریلو اخراجات چونکہ بیت المال کے ذمے تھے، اس لیے آپ اپنے اہل بیت کی سالانہ خوراک اس میں سے رکھ لیتے تھے اور باقی مال مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ فرماتے تھے۔
(2) جائز اسباب کا حصول توکل کے خلاف نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جنگی اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ خریدا کرتے تھے، نیز اسی طرح اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے سال بھر کا خرچہ جمع کر رکھنا بھی توکل علی اللہ کے منافی نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4145   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2965  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2965]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔
(الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔
ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔
(ب) مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج) بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جا سکتے تھے۔
لے جانے کی اجازت دی۔
باقی سب کچھ فے تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔
زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔
لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اور دیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پر خرچ کرتے۔
بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔
خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔
اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔
اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔
بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطور فے آپ کی تحویل میں آگیا۔
اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔
خیبر کا جو حصہ جنگ کے ذریعے سے حاصل ہوا۔
اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔
 (عون المعبود باب في صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الأموال، شرح حدیث 2969)

خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔
(ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔
 (أبو داود، حدیث: 3012۔
2970)


حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔
البتہ آل محمد یا نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔
باقی صدقہ ہوگا۔
 (ابوداود، حدیث: 2968۔
2974)
اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔
اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پر خرچ ہوگی۔
جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔
اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔
 (ابوداود، حدیث: 2963۔
2970)
چونکہ ان صفایا (خاص اموال) کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔
اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔
(ابوداود، حدیث: 2968۔
2970)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2965   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2966  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا اللہ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (سورۃ الحشر: ۶) زہری کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عرینہ کے چند گاؤں جیسے فدک وغیرہ خاص ہوئے، اور دوسری آیتیں «‏‏‏‏ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» گاؤں والوں کا جو (ما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2966]
فوائد ومسائل:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھتے تھے۔
کہ مال فے میں تمام مسلمانوں کا حق اور حصہ ہے۔


مال فے میں سے پانچواں حصہ (خمس) نہیں نکالا جاتا بلکہ خمس غنائم میں سے نکالا جاتا ہے۔
اور نکال کرحکومت کے سپرد کیا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2966   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1719  
´مال فے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسود کے قبیلہ بنی نضیر کے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور «فے» ۱؎ عطا کیا تھا، اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ ہی اونٹ، یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کر لیتے، پھر جو باقی بچتا اسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچ کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1719]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فئی:
وہ مال ہے جو کافروں سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے،
یہ مال آپ کے لیے خاص تھا،
مال غنیمت نہ تھا کہ مجاہدین میں تقسیم کیاجاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1719   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:22  
مالک بن اوس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بنو نضیر کی زمینیں وہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فے کے طور پر عطا کی تھیں۔ مسلمانوں نے ان کے لیے گھوڑے نہیں دوڑائے تھے سواریاں نہیں دوڑائیں تھیں یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدن میں سے اپنے اہل خانہ کے سال بھر کا خرچ حاصل کرتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے گھوڑوں اور اسلحے کے لئے، یعنی اللہ کی راہ میں تیاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:22]
فائدہ:
سنن ٱبی داود (2963) میں اس حدیث میں ایک لمبا واقعہ ہے، جس کا اس حدیث کو سمجھنے میں اہم تعلق ہے، ہم اس کو ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں تا کہ قارئین کے سامنے مفصل حدیث ہو۔
سیدنا مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا، جبکہ دن چڑھ آیا تھا۔ میں ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ کھری چارپائی پر بیٹھے ہیں (اس پر کوئی بچھونا نہیں ہے)، انھوں نے میرے داخل ہوتے ہی کہا: اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ اپنے اہل و عیال سمیت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچے ہیں، میں نے ان کے لیے کسی قدر مال کا کہہ دیا ہے، تو وہ ان میں تقسیم کر دو۔ میں نے کہا: اگر آپ یہ کام میرے سوا کسی اور سے کہہ دیں (تو بہتر ہے۔) انھوں نے کہا: تم ہی اسے کرو، اتنے میں (ان کا خادم) یرفا آ گیا۔ اس نے کہا: اے امیر المومنین! سیدنا عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں، تو انھوں نے کہا: ہاں، اور ان کے لیے اجازت دے دی، تو وہ بھی اندر آ گئے۔ یرفا پھر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم بھی آئے ہیں۔ آپ نے کہا: ہاں، ہاں اور ان کے لیے اجازت دے دی، تو وہ بھی اندر آ گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! میرے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ اہل مجلس میں سے کچھ نے کہا: ہاں، اے امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیں، اور انھیں راحت دیں۔ سیدنا مالک بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ ان دونوں ہی نے دیگر حضرات کو اس مقصد کے لیے بھیجا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ذرا ٹھہرو، اور اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم (انبیاء) لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو بھی چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ان سب نے کہا: ہاں (یہ سچ ہے)، پھر آپ سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم (انبیاء) لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو بھی چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ان دونوں نے کہا: ہاں (یہ سچ ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خصوصیت عطا فرمائی تھی، جو عام لوگوں میں سے کسی اور کو عطا نہیں کی گئی تھی، اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
«وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎» [الحشر: 6]
اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پھیر دیا ہے، اس پر تم نے نہ گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنونضیر کے اموال دیے تھے، تو اللہ کی قسم! وہ آپ نے لوگوں کو چھوڑ کر اپنے لیے مختص نہیں کیے تھے، اور نہ تمھارے بغیر خود ہی رکھے تھے کہ تمھیں اس میں سے کچھ نہ دیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنا ایک سال کا خرچ اور اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچ لیا کرتے تھے اور باقی ماندہ کو دیگر اموال کی طرح خرچ کرتے تھے۔ پھر وہ اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم لوگ یہ جانتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر وہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم لوگ یہ جانتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہاں۔ (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی (ان کی طرف سے معاملے کا ذمہ دار ہوں) تو تم (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ) اور یہ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تم اپنے بھتیجے کی وراثت سے اپنا حصہ اور میراث مانگتے تھے، اور یہ اپنی بیوی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کا ان کے والد کی میراث سے حصہ طلب کر رہے تھے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم کوئی وراثت نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ وہ (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) سچے اور صالح تھے، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال کے نگران بنے رہے، جب ان کی وفات ہو گئی تو میں نے کہا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں ہو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، اس کا نگران اور منتظم رہا ہوں، پھر تم اور یہ آئے اور تم دونوں متفق تھے اور تمھاری بات بھی ایک تھی کہ اس کا مجھ سے مطالبہ کر رہے تھے، تو میں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں یہ اموال تمھارے حوالے کر دیتا ہوں مگر تمہیں اللہ کے نام کا عہد دینا ہو گا کہ اس کا انتظام اسی طرح کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، اس عہد پر تم نے مجھ سے اسے لیا، اس کے بعد تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ تم دونوں میں دوسرا فیصلہ کروں، اللہ کی قسم! میں تمھارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، خواہ قیامت آ جائے۔ اگر تم اس کا انتظام سنبھالنے سے عاجز ہو تو مجھے واپس کر دو۔
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان دونوں حضرات کا سوال یہ تھا کہ اس کا انتظام با قاعدہ طور پر ان دونوں کے مابین آدھا آدھا کر دیا جائے، یہ بات نہیں کہ وہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے لاعلم تھے، کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔ وہ دونوں بھی حق وصواب ہی چاہتے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس مال پر تقسیم کا نام نہیں دوں گا، میں اسے ایسے ہی رہنے دوں گا جیسے کہ یہ ہے۔ اس حدیث میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کا حکیمانہ انداز اور ان کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت قدمی اختیار کرنے کا بھی واضح ثبوت ہے۔
اختلاف کی صورت میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا فرض ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 22   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2904  
2904. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کا مال ان مالوں میں سے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے غنیمت قرار دیا تھا اور مسلمانوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے اس پر گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے تھے، لہذا یہ مال رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا۔ آپ اس میں سے ایک سال کا خرچہ اپنے اہل خانہ کو دے دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدکر جہادکے سامان کی تیاری کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2904]
حدیث حاشیہ:
ہتھیار گھوڑے یہ ساری فوج کے استعمال کے واسطے مہیا کئے جاتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2904   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4885  
4885. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کے اموال اللہ تعالٰی نے لڑائی کے بغیر اپنے رسول ﷺ کو عطا فرمائے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے لیے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے صوابدیدی اختیارات پر موقوف تھا، چنانچہ آپ ان میں سے ازواج مطہرات کو سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے سامان جنگ خریدتے اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تا کہ اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4885]
حدیث حاشیہ:
اسلام کی اصطلاح میں ''فے'' وہ مال ہے جو دار الحرب سے بلا جنگ حاصل ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4885   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2904  
2904. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کا مال ان مالوں میں سے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے غنیمت قرار دیا تھا اور مسلمانوں نے اسے حاصل کرنے کے لیے اس پر گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے تھے، لہذا یہ مال رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھا۔ آپ اس میں سے ایک سال کا خرچہ اپنے اہل خانہ کو دے دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدکر جہادکے سامان کی تیاری کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2904]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جنگی ہتھار تیارکرنا، خریدنا اور انھیں استعمال کرناتوکل کے خلاف نہیں، چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ مال غنیمت سے ہتھیار خرید کر جہاد کی تیاری کرتے تھے، حالانکہ آپ سید المتوکلین تھے۔
ڈھال بھی ایک جنگی ہتھیار ہے۔
اس بنا پر اس حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2904   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4885  
4885. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ بنو نضیر کے اموال اللہ تعالٰی نے لڑائی کے بغیر اپنے رسول ﷺ کو عطا فرمائے تھے۔ مسلمانوں نے ان کے لیے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ان اموال کا خرچ کرنا خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے صوابدیدی اختیارات پر موقوف تھا، چنانچہ آپ ان میں سے ازواج مطہرات کو سالانہ خرچ دیتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے سامان جنگ خریدتے اور گھوڑوں پر خرچ کرتے تھے تا کہ اللہ تعالٰی کے راستے میں جہاد کے موقع پر کام آئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4885]
حدیث حاشیہ:

جو مال دوران جنگ میں مسلمانوں کی لڑائی اور محنت ومشقت کے نتیجے میں حاصل ہوا اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔
اس کے متعلق تفصیلی احکام سورہ انفال میں بیان ہوئے ہیں اور جو مال جنگ کے بغیر ہاتھ آجائے اسے مال فے کہتے ہیں۔
چونکہ یہ مال اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اس کی اُمت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے، اس لیے یہ مال، مال غنیمت سے جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔
اس مال پر مسلمانوں کے امیر کا تصرف حاکمانہ ہوتا ہے۔
وہ اسے اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہے خر چ کرے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اناج کا ایک سال تک کے لیے ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن اگر ذخیرہ اندوزی سے عام لوگوں کو نقصان پہنچتا ہوتو جائز نہیں، نیز خوراک کا ذخیرہ کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4885