تخریج: «أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب كراهة الاستعانة في الغزو بكافر...، حديث:1817.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے مشرک سے جنگ میں تعاون لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
2. واقعہ کچھ یوں ہے کہ جنگ بدر کی طرف آپ تشریف لے جا رہے تھے۔
جب حرہ پر پہنچے تو ایک مشرک آپ کے ساتھ آملا۔
وہ جرأت و بہادری میں مشہور تھا۔
اس نے آتے ہی عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ مل کر لڑنا چاہتا ہوں اور غنیمت کے حصول کے لیے شامل ہوا ہوں۔
آپ نے فرمایا:
”اللہ پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں؟
“ اس نے کہا: نہیں۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں کسی مشرک سے مدد نہیں چاہتا۔
“ جب وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا تو اسے اجازت مرحمت فرما دی۔
3.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں۔
ایک جماعت کا خیال تو یہی ہے کہ امداد لینا ناجائز ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت امداد لینا جائز ہے جیسا کہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اور قینقاع کے یہودیوں سے بھی امداد لی تھی۔
بہرحال شدید ضرورت و حاجت کے موقع پر اسلحہ کی امداد اور افرادی امداد لینے کی گنجائش ہے۔