تخریج: «أخرجه النسائي، البيعة، باب ذكر الاختلاف في انقطاع الهجرة، حديث:4177، وابن حبان (الإحسان):7 /179، حديث:4846.»
تشریح:
1. گزشتہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ آغاز اسلام کے وقت چونکہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور مرکز مدینہ منورہ کو مضبوط اور طاقتور کرنا تھا‘ اس لیے یہ مقصد ہجرت کے بغیر حاصل ہونا نہایت ہی دشوار اور مشکل تھا‘ اس لیے ہجرت ہر مسلمان کے لیے فرض تھی۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے‘ پھر ایک وقت آیا کہ مکہ فتح ہوگیا تو اس کے بعد مختلف قبائل پے درپے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اسلامی ریاست کی توسیع ہوگئی تو مدینہ میں ہجرت کر کے آنے کا حکم ختم ہوگیا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے۔
2.اب مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دارالکفر میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہو تو اس کے لیے دارالاسلام کی جانب ہجرت کرنا اب بھی فرض ہے۔
3.حضرت ابن سعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ اگرچہ فتح مکہ کے بعد مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے لیکن دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا حکم اب بھی باقی ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ» صحابی ہیں۔
قریشی اور عامری تھے۔
واقدی نے کہا ہے کہ ان کی وفات ۵۷ ہجری میں ہوئی اور سعدی کا نام عمرو‘ یا قدامہ‘ یا عبداللہ بن وقدان تھا۔