تخریج: «أخرجه الدار قطني (التعليق المغني):3 /132، وابن أبي خيثمة، فيه رجل من بني عبدالقيس مجهول، وللحديث شواهد، منها الآتي، وحديث خالد بن عرفطة، أخرجه أحمد:5 /292، وفيه علي بن زيد بن جدعان «وهو ضعيف» .»
تشریح:
اس حدیث میں ارشاد ہے کہ فتنوں کے دور میں الگ ہو کر بیٹھ جانا اور اس میں حصہ نہ لینادین و ایمان کی سلامتی کا باعث ہے‘ مگر یہ اس وقت ہے جب دو گروہ ناجائز اور بغیر حق کے باہم لڑ پڑیں‘ یا پھر یہ کہ اس لڑائی میں آدمی کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کون سا گروہ حق پر ہے؟ جب اسے معلوم ہو جائے کہ حق فلاں کے ساتھ ہے تو پھر حق کی مدد اور باطل کے دفع کرنے میں تگ و دو اور دوڑ دھوپ اس پر واجب ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ (الحجرات۴۹:۹) ”جو گروہ زیادتی کرے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف پلٹ آئے۔
“ مگر جب کسی شخص پر کوئی حملہ آور ہو اور اسے قتل کرنا چاہے یا اس کا مال و متاع لوٹنا چاہے یا ایسی ہی کوئی اور صورت رونما ہو جائے تو اس حدیث کی رو سے اسے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دینا چاہیے۔
اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اس سے لڑنا چاہیے اور اس دفاعی و حفاظتی لڑائی میں اگر وہ مارا جائے گا تو رتبۂشہادت پا لے گا۔
بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں امور میں سے جو مصالح کے موافق ہو اسے اختیار کر لے۔
واللّٰہ أعلم۔
راویٔ حدیث: «عبداللہ بن خباب رحمہ اللہ» مدنی ہیں اور ثقہ ہیں‘ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔
۳۷ہجری کو نہروان کے راستے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کے بعد خارجیوں نے انھیں قتل کیا۔
اور ان کے قتل کے بعد وہ ان کے گھر گئے اور ان کی ام ولد کا پیٹ پھاڑا اور ان کے بیٹے کو قتل کر دیا۔
یہی واقعہ‘ مشہور جنگ‘ جنگ نہروان کا باعث بن گیا‘ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں سارے خارجی قتل ہو گئے۔
صرف نو افراد بچے ‘جو بعد میں اٹھنے والے بڑے فتنے کے لیے جراثیم ثابت ہوئے۔
وضاحت:
«حضرت خبّاب رضی اللہ عنہ» خباب میں
”با
“ پر تشدید ہے۔
خباب بن ارت بن جندلہ تمیمی۔
اللہ کے راستے میں سخت اذیتیں جھیلنے والوں میں سے ایک تھے۔
بدری صحابی ہیں۔
جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں ۳۷ ہجری کو ۷۳ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
وضاحت:
«حضرت خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ» بنو قضاعہ کی بڑی شاخ بنو عذرہ سے تھے۔
شرف صحابیت سے بہرہ ور تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی جانب سے کوفہ پر حاکم تھے۔
۶۱ ہجری میں وفات پائی۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں مختاربن ابو عبید نے یزید کی موت‘ یعنی ۶۴ ہجری کے بعد انھیں قتل کیا تھا۔