Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الحدود
حدود کے مسائل
3. باب حد السرقة
چوری کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1059
وعن أبي أمية المخزومي رضي الله عنه قال: أتي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بلص قد اعترف اعترافا ولم يوجد معه متاع فقال له رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏ما إخالك سرقت" قال: بلى فأعاد عليه مرتين أو ثلاثا،‏‏‏‏ فأمر به فقطع وجيء به،‏‏‏‏ فقال: «‏‏‏‏استغفر الله وتب إليه» ‏‏‏‏ فقال: أستغفر الله وأتوب إليه فقال: «‏‏‏‏اللهم تب عليه» ‏‏‏‏ ثلاثا. أخرجه أبو داود واللفظ له وأحمد والنسائي ورجاله ثقات. وأخرجه الحاكم من حديث أبي هريرة فساقه بمعناه وقال فيه: «‏‏‏‏اذهبوا به فاقطعوه ثم احسموه» ‏‏‏‏ وأخرجه البزار أيضا وقال: لا بأس بإسناده.
سیدنا ابوامیہ مخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ڈاکو لایا گیا۔ اس نے چوری کا اعتراف کیا مگر سامان اس کے پاس نہ پایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خیال نہیں کرتا کہ تو نے چوری کی ہو گی۔ اس نے کہا جی ہاں! میں نے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ اسی طرح دھرایا اس نے اقرار کیا تو اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلقین فرمائی کہ اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش مانگ اور اس سے توبہ کر۔ اس نے کہا میں اللہ سے بخشش و مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس کے حق میں اللہ سے دعا فرمائی کہ الٰہی اس کی توبہ قبول فرما۔ اس حدیث کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے۔ الفاظ بھی اسی کے ہیں نیز احمد اور نسائی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ اور حاکم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی تخریج کی ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جاؤ اور ہاتھ کاٹ دو پھر اسے داغ دینا۔ اور اسی کے ہم معنی ذکر ہیں۔ اسے بزار نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في التلقين في الحد، حديث:4380، والنسائي، قطع السارق، حديث:4881، وأحمد:5 /293، وحديث أبي هريرة: أخرجه الحاكم:4 /381، وصححه علي شرط مسلم، والبزار (كشف الأستار):2 /220.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1059 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1059  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الحدود، باب في التلقين في الحد، حديث:4380، والنسائي، قطع السارق، حديث:4881، وأحمد:5 /293، وحديث أبي هريرة: أخرجه الحاكم:4 /381، وصححه علي شرط مسلم، والبزار (كشف الأستار):2 /220.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ قرار دیا ہے جیسا کہ مصنف نے بھی مذکورہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور کہا ہے: «لاَبَأْسَ بِإِسْنَادِہٖ» اس کی سند میں کوئی نقص نہیں‘ لہٰذا یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۳۷ /۱۸۴) 2.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس نے عدالت کے روبرو چوری کا اعتراف کر لیا ہو گو اس سے مال و متاع برآمد نہ ہوا ہو تو اس کی سزا قطع ید ہے۔
3. قطع ید کے بعد کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے جس سے خون بہنا بند ہو جائے۔
اگر بروقت اس کا یہ مداوا نہ کیا جائے اور اس کے نتیجے میں خون بہہ کر وہ جاں بحق ہو جائے تو اس کی دیت بیت المال پر پڑ جائے گی۔
4.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس چور کا ہاتھ کٹ جائے اسے یہ سزا ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور طلب استغفار اور توبہ کرنی چاہیے اور یہ عزم و عہد کرنا چاہیے کہ آئندہ اس فعل قبیح کا ارتکاب نہیں کرے گا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا تعلق حجاز سے ہے۔
صحابی ہیں۔
ان سے یہی ایک حدیث مروی ہے۔
حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ یہ مخزومی ہیں۔
اور ہمام بن یحییٰ نے کہا ہے کہ ان کا تعلق انصار سے تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1059   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4380  
´حد میں ایسی بات کی تلقین کا بیان جس سے حد جاتی رہے۔`
ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کر لیا تھا، لیکن اس کے پاس کوئی سامان نہیں پایا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: میں نہیں سمجھتا کہ تم نے چوری کی ہے اس نے کہا: کیوں نہیں، ضرور چرایا ہے، اسی طرح اس نے آپ سے دو یا تین بار دہرایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا، تو اس کا ہاتھ کاٹ لیا گیا، اور اسے لایا گیا، تو آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت طلب کرو، اور اس سے توبہ کرو اس نے کہا: میں اللہ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4380]
فوائد ومسائل:
1) معلوم ہوا کہ قابل حدجرم میں اگر کوئی ازخود اقرار کر رہا ہو تو مستحب ہے کہ اس انداز سے بات کی جائے کہ وہ اپنے اقرار سے منحرف ہوجائے اور حد لگنےسے بچ جائے۔

2) حد لگنے کے بعد بھی مجرم کواستغفار اور توبہ کی ترغیب دی جانی چاہئے، کیونکہ اگر کوئی ان حدود پر راضی نہ ہو اور اپنے جرم کو درست سمجھتا ہو تو یہ حد اس کے لئے کفارہ نہیں بن سکتی۔
جبکہ صاحب ایمان وتسلیم کے لیے حدود کفارہ ہوتی ہیں۔
(صيح البخاري، الحدود باب:الحدود كفارة، حديث:٦٧٨٤)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4380