تخریج: «أخرجه الحاكم:4 /244، 383 وصححه علي شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وملك في الموطأ:2 /825، وللحديث شواهد في التمهيد:(5 /224) وغيره.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بشری کمزوری کی بنا پر گناہ کا سرزد ہوجانا خلاف توقع نہیں‘ مگر جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنا جرم اور فعل لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتا پھرے بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے تو اسے پردے ہی میں رہنے دے اور پوشیدہ طور پر اللہ رب العزت کے حضور توبہ کرے اور اس سے معافی کا طلب گار ہو۔
لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا برملا اظہار کرتا اور اعتراف جرم کرتا ہے تو پھر وہ کسی صورت میں شرعی سزا سے نہیں بچ سکتا۔
راویٔ حدیث: «حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ» صحابی ہیں اور بَنُو بَلِيّ‘ یعنی بنو عجلان قبیلہ سے ہیں۔
یہ انصار کے قبیلۂبنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔
بدر میں شریک ہوئے۔
کہا جاتاہے کہ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔
ہشام کلبی نے کہا ہے کہ انھیں طلیحہ بن خویلد اسدی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز‘ یعنی ۱۱ ہجری میں
” جنگ بزاخہ
“ کے روز قتل کیا تھا۔