بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات ( جرائم ) کے مسائل
5. باب قتال الجاني وقتل المرتد
مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1033
وعنه رضي الله تعالى عنه أن أعمى كانت له أم ولد تشتم النبي صلى الله عليه وآله وسلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي فلما كان ليلة أخذ المعول فجعله في بطنها واتكأ عليها فقتلها فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «ألا اشهدوا فإن دمها هدر» . رواه أبو داود ورواته ثقات.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ایک نابینا شخص تھا، اس کی ایک ام ولد لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتی اور برا بھلا کہتی تھی۔ وہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ اسے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتی۔ ایک رات انہوں نے کدال لے کر اس کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اپنا بوجھ ڈال کر دبایا اور اسے قتل کر دیا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم گواہ رہو اس کا خون رائیگاں اور بیکار گیا۔“ (ابوداؤد) اس کے راوی ثقہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب الحكم فيمن سب النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:4361.»
حكم دارالسلام: صحيح
بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1033 کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1033
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب الحكم فيمن سب النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:4361.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کی سزا قتل ہے اور اس کا خون رائیگاں ہے۔
2.اسی طرح ذمی غیر مسلم بھی اگر یہ جرم کرے تو اس کی سزا بھی یہی ہے‘ اس کے عہد کی پاسداری نہیں کی جائے گی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1033
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4075
´نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے والے کے حکم کا بیان۔`
عثمان شحام کہتے ہیں کہ میں ایک اندھے آدمی کو لے کر عکرمہ کے پاس گیا تو وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نابینا آدمی تھا، اس کی ایک ام ولد (لونڈی) تھی، اس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4075]
اردو حاشہ:
(1) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل صریح ہے کہ نبی ﷺ کو گالی بکنے والے کی سزا قتل ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور نبی ﷺ کی پاکیزہ ذات کی بابت اس قسم کی زبان درازی کرنے سے ذمی شخص کا ذمہ اور مسلمان کا اسلام ختم ہو جاتا ہے۔
(3) اس حدیث سے معلوم ہوا نبیٔ اکرم ﷺ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔ وہ اگر مسلمان تھا تو گالی دینے سے کافر و مرتد بن گیا کیونکہ رسالت کی تصدیق نہ رہی، اور ایک مسلمان کے لیے توحید و رسالت کی تصدیق ضروری چیز ہے، لہٰذا اسے ارتداد والی سزا دی جائے گی اور اگر وہ ذمی تھا تو آپ ﷺ کو گالی دینے سے اس کا ذمہ ختم ہو گیا کیونکہ اسلامی حکومت کے تحت کافروں کے لیے ذمہ اور پناہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے، اور آپ کو گالی دینا ذمہ سے دست بردار ہونے کے مترادف ہے، اس لیے اس کا خون معصوم و محفوظ نہ رہا، چنانچہ اسے قتل کیا جائے گا۔ مذکورہ حدیث اس معنیٰ میں صریح ہے۔ وہ لونڈی بھی کافر اور ذمی تھی، مسلمان نہ تھی۔ کعب بن اشرف کا قتل بھی اس مسئلے کی واضح دلیل ہے۔ الا یہ کہ وہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے کیونکہ اسلام پہلے کے ہر گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔ ائمۂ کرام میں سے صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ”ذمیوں کو اس جرم میں قتل نہ کیا جائے گا کیونکہ ان کے دوسرے عقائد جو خالص کفر و شرک ہیں، ان کے خون کو مباح نہیں کرتے تو یہ جرم کیسے مباح کر دے گا؟“ حالانکہ ان کو اپنے عقائد و اعمال پر کاربند رہنے کی اجازت ہے مگر علانیہ نہیں۔ نبی ﷺ کو گالی بکنا کوئی مخفی چیز نہیں بلکہ یہ علانیہ ہو گا، نیز جس طرح انہیں یہ اجازت نہیں کہ کسی کو قتل کریں، اسی طرح ان کو یہ بھی اجازت نہیں کہ آپ ﷺ کو گالی دیں۔ آپ ﷺ کو گالی دینا یقینا ایک مسلمان کو قتل کرنے سے بڑھ کر ہے۔ ان کا ذمی ہونا انہیں ہر من مانی کی اجازت نہیں دیتا۔ عام آدمی کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں چہ جائیکہ مسلمانوں کے جان و ایمان سے بڑھ کر محترم نبیٔ اکرم ﷺ کو (خاکم بدہن) گالی دینے کی اجازت ہو۔
(4) آفریں صد آفریں ہے اس نابینا صحابی کی ایمانی غیرت اور دینی حمیت پر کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ایسے ڈوبے ہوئے تھے جس کی مثال ناپید ہے۔ ہر چند وہ ظاہری بصارت سے محروم تھے، مگر اس کی تلافی ان کی بصیرت اور حب رسول کی معراج سے ہو گئی۔ اس غیور شخص نے اپنے معصوم بچوں کی ماں، اپنی کور چشمی کی لاٹھی اور جاں نثار رفیقۂ زندگی کو آپ کی گستاخی پر موت کے گھاٹ اُتار دیا، اس لیے کہ وہ اس کی متاعِ ایمان و دین کی غارت گر تھی۔ اس بے ادب لونڈی کا جرم اس قدر سنگین تھا کہ جس میں مداہنت کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا مومن کی دینی غیرت و حمیت کے منافی اور اس کی شانِ اسلام کے خلاف ہے۔
(5) اس حدیث شریف سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اس قلبی الفت و محبت اور شعوری و بابصیرت عقیدت کی نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ جس کے مقابلے میں وہ لوگ افرادِ مخلوق میں سے کسی قریبی سے قریبی عزیز اور تعلق دار کی محبت کو خاطر میں لاتے نہ کسی قسم کی مصلحت ہی کو آڑے آنے دیتے تھے۔ رضي اللہ تعالی عنهم أجمعین۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4075
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4361
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (اندھے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4361]
فوائد ومسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شاتم کی سزا قتل ہے۔
اس پر کوئی قصاص ہے نہ ادیت۔
قاتل کا یہ عمل اس کی غیرت ایمانی کا اظہار اور باعث اجروفضل ہوگا۔
لیکن یہ کام بواسطہ حکومت ہونا چاہئے تاکہ فتنہ نہ بن جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4361