تخریج: «أخرجه مسلم، الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن...، حديث:1848.»
تشریح:
1. اگر کوئی آدمی مسلمانوں کی جماعت سے بعض اختلافات کی وجہ سے الگ ہوجائے‘ صرف علیحدگی اختیار کی ہو‘ باغیانہ روش اختیار نہ کی ہو تو اس حدیث کی رو سے اس سے لڑائی نہیں کی جائے گی۔
اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا تاوقتیکہ وہ باغیانہ طرز زندگی پر نکل کھڑا ہو۔
جب وہ ایسی روش پر چلے گا تو اس سے لڑائی کی جائے گی۔
2. امیر کی اطاعت اس وقت تک فرض ہے جب تک وہ کسی صریح اور بالکل واضح حکم شریعت کے خلاف حکم نہ دے۔
اور اس کی بیعت توڑنے کی اس وقت تک اجازت نہیں جب تک کہ صریح کفر و الحاد کے اختیار کرنے کا حکم نہ دے۔
3.پابند شرع امیر و خلیفہ کی نافرمانی بغاوت ہے‘ لہٰذا جو شخص ایسے امیر کی اطاعت سے نکل کر مسلمانوں سے الگ ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔
ایسی موت کو گمراہی کی موت تو کہہ سکتے ہیں کفر کی موت نہیں۔
4. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باغی مسلمانوں سے لڑنا جائز ہے۔
مگر یہ لڑنا حکومت کا کام ہے انفرادی طور پر لڑنا تو معاشرے کے امن و امان کو تہ و بالا کرنا ہے جس کی اسلامی حکومت اجازت نہیں دے سکتی۔