وعنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «في المواضح خمس خمس من الإبل» رواه أحمد والأربعة وزاد أحمد: «والأصابع سواء: كلهن عشر عشر من الإبل» . وصححه ابن خزيمة وابن الجارود.
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4846
´دانتوں کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام دانت برابر ہیں، ہر ایک میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4846]
اردو حاشہ:
(1) کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔
(2) اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (160) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ”اسنان“ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: 25/ 146-148) ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4846
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4856
´ہڈی تک پہنچنے والے زخم کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کیا تو خطبے میں فرمایا: ”ہر اس زخم میں جس میں ہڈی کھل جائے، دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4856]
اردو حاشہ:
اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ افضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4856
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4857
´دیت کے سلسلے میں عمرو بن حزم کی حدیث کا ذکر اور اس کے راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
عمرو بن حزم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے ایک کتاب لکھی، اس میں فرائض و سنن اور دیتوں کا ذکر کیا، وہ کتاب عمرو بن حزم کے ساتھ بھیجی، چنانچہ وہ اہل یمن کو پڑھ کر سنائی گئی، اس کا مضمون یہ تھا: نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرحبیل بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور حارث بن عبد کلال کے نام جو رعین، معافر اور ہمدان کے والی تھے۔ امابعد، اس کتاب میں لکھا تھا: جو بلا وجہ کس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4857]
اردو حاشہ:
(1) محمد بن بکار بن بلال نے حکم بن موسیٰ کی مخالفت کی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ حکم بن موسیٰ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے کہا ہے: حدثنا یحي بن حمزة عن سلیمان بن داود قال: حدثني الزھري، جب محمد بن بکار بن بلال نے یہ روایت بیان کی تو کہا: حدثنا یحي قال حدثنا سلیمان بن أرقم قال حدثني الزھري مطلب یہ ہے کہ حکم بن موسیٰ نے یحییٰ بن حمزہ کے استاد سلیمان بن داود سے روایت بیان کی ہے جبکہ محمد بن بکار بن بلال نے یہی روایت یحییٰ کے استاد سلیمان بن ارقم سے بیان کی ہے جیسا کہ درج ذیل روایت میں بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم
(2) یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم اس کے اکثر مندرجات دیگر صحیح احادیث میں مذکور ہیں، جن میں سے بعض پہلے گزر چکے ہیں، نیز ان سے متعلقہ احکام ومسائل کی تفصیل بھی بیان ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4857
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2655
´ہڈی ظاہر کر دینے والے زخم کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہڈی ظاہر کر دینے والے زخم میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2655]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
”موضحہ“ وہ زخم ہے جس سے ہڈی کی سفیدی ظاہر ہوجائے۔
جس موضحہ کا جرمانہ پانچ اونٹ ہے وہ ایسا موضحہ ہے جو سر اور چہرے میں ہو۔
کسی اور عضو پر اگر موضحہ زخم لگے تو اس پر مناسب نقد جرمانہ ہے۔“ (النہایة۔
مادہ، وضح)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2655
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1390
´موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «موضحہ» (ہڈی کھل جانے والے زخم) ۱؎ میں پانچ اونٹ ہیں۔“ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1390]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
موضحہ وہ زخم ہے جس سے ہڈی کھل جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1390