Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات ( جرائم ) کے مسائل
2. باب الديات
اقسام دیت کا بیان
حدیث نمبر: 1014
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم رفعه قال: «من تطبب،‏‏‏‏ ولم يكن بالطب معروفا،‏‏‏‏ فأصاب نفسا فما دونها،‏‏‏‏ فهو ضامن» ‏‏‏‏ أخرجه الدارقطني وصححه الحاكم وهو عند أبي داود والنسائي وغيرهما إلا أن من أرسله أقوى ممن وصله.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جو شخص اپنے آپ طبیب بن کر کسی کو دوائی دیتا ہے حالانکہ اسے طبابت میں مہارت نہیں اور اس (کے غلط علاج) سے کوئی آدمی قتل ہو جائے یا کوئی نقصان کسی کو پہنچ جائے تو وہ اس کا ضامن ہے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداؤد اور نسائی وغیرہ کے ہاں بھی یہ روایت منقول ہے مگر جن راویوں نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے وہ ان راویوں سے زیادہ قوی ہیں جنہوں نے اسے موصول بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي[وسنده ضعيف] وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.»

حكم دارالسلام: ضعيف

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1014 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1014  
تخریج:
«أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي «وسنده ضعيف» وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن درجے کی بن جاتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘ رقم:۶۳۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں طبیب نہیں مگر وہ کسی کو دوائی دیتا ہے اور اس سے جانی نقصان ہو جاتا ہے یا اعضائے بدن میں سے کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی دیت واجب ہوگی اور ادائیگی ٔدیت کا بار اس کے عصبہ پر پڑے گا۔
3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) طبیب حاذق کے لیے بیس باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے‘ پھر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا ہے۔
4. ناتجربہ کار اور اناڑی طبیب سے نقصان کی صورت میں اس پر دیت کے واجب ہونے پر تمام ائمہ کا اجماع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1014   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4834  
´قتل شبہ عمد کی تشریح اور اس بات کا بیان کہ بچے کی اور شبہ عمد کی دیت کس پر ہو گی اور اس بابت مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو علاج معالجہ کرے، اور اس سے پہلے اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ طبیب ہے، تو (کسی گڑبڑی کے وقت) وہ ضامن ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4834]
اردو حاشہ:
(1) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [لکن الحدیث حسن بمجموع الطریقین] یعنی دونوں طریق کی وجہ سے مجموعی طور پر مذکورہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 635)
(2) موجودہ دور میں عطائی قسم کے ڈاکٹر اور طبیب عام ہیں۔ ان طبیبوں اور ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکومت وقت کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی اناڑی ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کی زندگی اور ان کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ عوام کو ایسے لوگوں کی دست برد سے بچنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھوں اگر کوئی مر جائے تو ان کے ذمے دیت ہوگی، تاہم مستند معالجین سے دوا لینا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے علاج معالجے اور دوا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر وطبیب مستند اور معروف ہو۔
(3) اگر کوئی آدمی کسی ڈاکٹر یا طبیب کی بے پروائی یا عدم مہارت کی وجہ سے مر جائے تو اس پر دیت ہوگی جو اس کے نسبی رشتہ دار ادا کریں گے۔ قصاص نہیں ہوگا کیونکہ وہ مکمل طور پر قصور وار نہیں۔ آخر علاج کروانے والے کی رضا مندی ہی سے اس کا علاج ہوا، لہٰذا اناڑی شخص سے علاج کروانے میں متعلقہ شخص بھی مجرم ہے۔ طبیب اکیلا مجرم نہیں۔
(4) مستند طبیب سے کوئی نقصان ہو جائے تو جب تک اس کی صریح غلطی ثابت نہ ہو جائے، وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ صریح غلطی کی صورت میں اسے دیت بھرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی خطا کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ طبیب نے عمداً نقصان پہنچایا ہے تو قصاص جاری ہوگا۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4834   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4586  
´جس نے طب جانے بغیر کسی کا علاج کیا اور اس کو نقصان پہنچا دیا تو اس کی سزا کیا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ (مریض کا) ضامن ہو گا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4586]
فوائد ومسائل:
بعض محققین کے نزدیک مذکورہ روایت حسن ہے، ان کے نزدیک عطائی قسم کے غیر معروف طبیب اورمعالج اگر اپنے علاج سے کسی نقصان کردیں تو وہ ضامن اور ذمہ دار ہیں اور لوگوں کو بھی ایسے عطائیوں سے محتاط رہنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4586   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3466  
´طب نہ جانتے ہوئے علاج معالجہ کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علاج کرنے لگے حالانکہ اس سے پہلے اس کے طبیب ہونے کا کسی کو علم نہیں تھا، تو وہ ضامن (ذمہ دار) ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3466]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔
جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگرشواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن بن جاتی ہے۔
مذید تفصیل کے لئے دیکھئے۔ (سلسلة الاحادیث الصحیحة، رقم: 635)

(2)
طب کا پیشہ ایک اہم پیشہ ہے۔
چونکہ اس کا تعلق لوگوں کی زندگی اور صحت سے ہے۔
اس لئے اسے باقاعدہ سیکھنے کے بعد علاج کرنا شروع کرناچاہیے۔

(3)
اناڑی حکیم کو لوگوں کی صحت سے کھیلنے سے روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

(4)
اناڑی ڈاکٹر یا طبیب کے غلط علاج کے نتیجے میں اگر کسی کو نقصان پہنچ جائے تو اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
اگر مریض ہلاک ہوجائے تو طبیب قتل خطا کا مجرم قرار دیاجائے گا۔
اور اس سے دیت وصول کرکے مریض کے وارثوں کو دی جائے گی۔

(5)
اسلام کی نظر میں ہر امیرغریب کی جان برابرقیمتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3466