تخریج: «أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي «وسنده ضعيف» وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن درجے کی بن جاتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘ رقم:۶۳۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں طبیب نہیں مگر وہ کسی کو دوائی دیتا ہے اور اس سے جانی نقصان ہو جاتا ہے یا اعضائے بدن میں سے کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی دیت واجب ہوگی اور ادائیگی ٔدیت کا بار اس کے عصبہ پر پڑے گا۔
3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے
(زاد المعاد میں) طبیب حاذق کے لیے بیس باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے‘ پھر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا ہے۔
4. ناتجربہ کار اور اناڑی طبیب سے نقصان کی صورت میں اس پر دیت کے واجب ہونے پر تمام ائمہ کا اجماع ہے۔