تخریج: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1699، وللحديث شواهد عند البخاري، الديات، حديث:6882، (من حديث ابن عباس) وغيره.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی سرکشی کرنے والے تین قسم کے آدمیوں کا ذکر ہے۔
ان میں ایک وہ بدنصیب ہے جو بلدامین‘ یعنی مکہ مکرمہ میں قتل ناحق کرتا ہے۔
قتل کرنا ویسے ہی بہت بڑا جرم ہے مگر حرمین شریفین میں قتل کرنا سنگین ترین جرم ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مقام اور جگہ کے لحاظ سے جرم کی سنگینی میں فرق واقع ہو جاتا ہے۔
غالباً اسی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے: جو شخص حرم میں قتل خطا کا مرتکب ہو اس پر دیت سخت رکھی جائے۔
2. دوسرا وہ شخص ہے جو اصل قاتل کے سوا بدلے میں کسی اور کو قتل کرتا ہے۔
قاتل سے بدلہ لینا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر جو شخص جوش انتقام میں قاتل کے کسی رشتے دار کو قتل کرتا ہے‘ وہ دہرے جرم کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔
3. اور تیسرا وہ شخص ہے جو زمانۂ جاہلیت کا بدلہ کسی مسلمان سے لیتا ہے‘ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی سرکش ہے۔